پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

دو ماہ قبل 15 اگست کو جب کابل پر طالبان کی جانب سے قبضہ ہوا تو ایران میں خوشی کا اظہار ہوا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائ کی جانب سے کابل پر طالبان کے قبضے کو امریکہ کی بڑی شکست قرار دیا گیا۔ مگر چند ہی ہفتوں بعد ہی جب طالبان نے پنجشیر پر قبضہ کیا تو ایران نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ایران کی سرکاری میڈیا نے پنجشیر پر قبضے میں پاکستان کو ملوث قرار دیا۔

حالات اسقدر بگڑتے ہوئے دکھائی دیئے کہ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر ایرانی شہریوں نے احتجاج کرکے پاکستان مخالف نعرے تک لگادیئے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حکومتی حلقوں میں مکمل سنٌاٹا دکھائی دیا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں لوگ حکومت سے سوال کرنے لگے کہ آخر ایرانی حکومت کی ہرزہ سرائی پر حکومت نے کیوں کوئی ردِعمل نہیں دیا۔

(جاری ہے)

تو آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ پہلے بات تُند و تیز بیانات تک پہنچی اور پھر اس کے بعد اچانک ایسے برف پھگلی کے ایران کے آرمی چیف محمد باقری بھارت کے بجائے پاکستان کے دورے پر راوالپنڈی پہنچ گئے ؟
افغانستان میں حکومت قائم ہونے کے بعد ایران کو یہ ڈر تھا کہ کہی افغانستان میں ان کے مفادات کو نقصان نا پہنچے۔

ایران چاہتا تھا کہ نئی حکومت میں ملٌا اختر منصور گروپ کو بھی حصہ ملے جنہیں عموماً ایران کا حمایت یافتہ گروپ تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں بھارت وہ ملک تھا جس نے جلتی پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ بھارتی انتہا پسند میڈیا کی جانب سے مسلسل جعلی ویڈیوز اور پروپیگنڈا سے تہران میں یہ تاثر گیا گویا پاکستانی فوج واقعی پنجشیر میں طالبان کی مدد کر رہی ہو جس کی وجہ سے نئی افغان حکومت پر مکمل پاکستانی اثر و رسوخ قائم ہوجائے گا۔

اسی غلط فہمی نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید خراب کردیا۔ مگر پاکستان نے بجائے جوابی بیانات دینے کے تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ پاکستان کو اس بات کا علم تھا کہ وہ بلوچستان کی سرحد کے قریب ایک اور بھارت نواز پڑوسی ملک کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب نئی افغان حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھے اس سے ایران کو یقین ہونا شروع ہوا کہ جس طرح سے بھارت کی جانب سے طالبان کو پاکستان کی کٹپتلی حکومت دکھائے جانے کی کوشش کی جارہی تھی حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

کیونکہ اگر طالبان پاکستان کے حمایت یافتہ ہوتے تو وہ پاکستان کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے ان کے خلاف کاروائی کرتے جو انہوں نے نہیں کیا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں شیعہ مساجد پر داعش کے جانب سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بھی ایران شاید اپنے اختلاف بھلاکر پاکستان سے دوبارہ تعلقات بحال کرنے پر راضی ہوا۔

چنانچہ یہی وہ بعد میں ہونے والے واقعات تھے جن کی وجہ سے تہران اور پاکستان میں غلط فہمیاں دور ہوئی۔
انہی غلط فہمیوں کے مٹنے کا نتیجہ ہی آج ایرانی آرمی چیف جنرل محمد باقری کے دورہِ پاکستان کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ ان کا یہ دورہ آنے والے دونوں میں خطے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ محمد باقری نے اس دورے کے دوران نا صرف پاکستانی جے ایف 17 تھنڈر اور دیگر پاکستانی ساختہ اسلحے کی خریداری میں خاصی دلچسپی ظاہر کی ہے بالکہ دفاعی خبر رساں ذرائع سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو مشرکہ جہاز سازی اور آبدوز سازی کرنے اور انکی مرمت کی پیشکش بھی کی ہے۔

اس پیشرفت سے یہ تو اب واضح ہوچکا ہے کم سے کم پاکستان کو اب اس معاملے میں مطمئن ہونا چاہئے کہ اس کا ایک اور ہمسایہ ملک مستقبل میں بھارت کے ساتھ مل کر اس کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔ بلکہ اس کے برعکس اب ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی تعاون ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ دوسرا یہ کہ جس طرح بھارت چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتا تھا اب اس معاملے میں بھی پاکستان کو اطمینان ہوگا۔ چناچہ چاہبہار کا استعمال اگر بھارت کو کرنے بھی دیا گیا تو وہ صرف صرف معیشت کی حد تک ہی رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :