"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"

منگل 3 اگست 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

مالدیپ جنوبی ایشیاء اور مسلم دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے جس کی آبادی قریباً 6 لاکھ کے قریب ہے۔ اس ملک کے شہری آج کل ایک ایسے ملک کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو ان سے رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے سینکڑوں گنا بڑا ہے۔ مگر سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس ملک سے آخر بھارت کیا چاہتا ہے اور یہاں کی عوام کو بھارت کی موجودگی سے کیا اختلاف ہے جو انہیں سڑکوں پر نکل کر گو انڈیا گو اور انڈیا آؤٹ کے نعروں پر مجبور کرگئی ؟
مالدیپ جنوبی ایشیاء کا سب سے چھوٹا ملک ہے جو 1192 کورل اور 26 ایٹول جزائر پر مشتمل ہیں جن میں صرف 200 جزائر ہی ایسے ہیں جہاں لوگ آباد ہیں۔

یہ ملک 1965 میں تاجِ برطانیہ سے آزاد ہوا جس پر 1967 میں ابراہیم ناصر کی حکومت قائم ہوئی جو بعد میں اندرونی سیاسی خلفشار کے باعث 1978 میں مستعفی ہوکر سنگاپور میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔

(جاری ہے)

ان کے بعد مامون محمد عبدالغیوم کا 30 سالہ دور شروع ہوا جن کا تختہ پلٹنے کی کئی کوششیں کی گئی۔ اور اسی طرح آغاز ہوتا ہے بھارت کا مالدیپ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا۔

1988 میں جب عبدالغیوم کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش ایک بزنس مین محمد ابراہیم لطفی کی زیرِ قیادت کامیاب ہوئی تو اس وقت عبدالغیوم نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی۔ بھارت نے مالے میں آپریشن کیکٹس کے ذریعے بغاوت کو ناکام بنایا اور عبدالغیوم کی حکومت دوبارہ بحال کروانے میں مدد فراہم کی۔ لیکن عجیب اور سب سے حیرانکن بات یہ ہے کہ محمد لطفی کو مالدیپ میں تختہ پلٹنے کے لئے حمایت اس وقت سری لنکن حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تامل ٹائیگرز کی حاصل تھی۔

انہی تامل ٹائیگرز کو سری لنکا کے خلاف بھارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارت اُنہیں اسلحے سمیت مالی معاونت بھی فراہم کرتا تھا۔ تو بھلا بھارت کا حمایت یافتہ گروپ مالدیپ میں اسی حکومت کو کیوں گرانے میں مدد فراہم کرتا جسے ریسکیو ہی بھارت کر رہا تھا ؟ یہی تضاد دراصل اس نظریے کو مزید تقویت دیتا ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت دراصل مالدیپ پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا تھا کیونکہ براہِ راست کسی تختہ پلٹ کی حمایت سے بھارت کو شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔

لہذا آج بھارت کی مالے میں غیر معمولی موجودگی اور سیاسی و عسکری مداخلت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بہرحال، جب سے چین معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے تب سے بھارت کو بارہا یہی پریشانی ستائے جارہی ہے کہ کہی مالدیپ میں چین انکے لئے گلے کا پھندا بن کر نا بیٹھ جائے جس طرح سے چین نے چٹاگونگ  ہمبنٹوٹا اور گوادر کی بندرگاہوں میں "پرل آف اسٹرنگ" یعنی موتیوں کی مالا کی مالا کی مانند بھارت کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے اسی طرح چین کے مقابلے میں بھارت نے بھی اب صرف سیاسی مداخلت ہی نہیں بلکہ فوجی موجودگی کو بھی مالدیپ میں بڑھانا شرع کردیا ہے۔

صورتحال تب واضح ہونا شروع ہوئی جب بھارت نے امداد کے نام پر اپنے دو ہیلی کاپٹر مالدیپی حکومت کو بطور تحفہ دیئے اور اسے آپریٹ کرنے کے لئے بھی بھارتی افسران کو بھیجا گیا۔ تاہم اس کے خلاف مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین نے سخت احتجاج کیا اور اسے بھارت کی طرف سے مالدیپ میں جاسوسی کرنے کا ایک ذریعہ بتا کر اسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اسے واپس لیا اور نا ہی اپنے افسران کو واپس بلایا جس کا واضح مطلب تھا کہ بھارت دراصل امداد کے نام پر واقعی مالدیپ میں چینی جہازوں کے گذر پر نظر رکھنے کا کام کر رہا تھا۔

اس کے علاوہ بھارتی حکومت مسلسل مالدیپ سے فوجی معاہدے کرنے کے اعلانات کررہی تھی اور مالدیپ کی حکومت بھی باوجود اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے ان معاہدوں کو مالدیپ کی مجلس میں پیش کرنے سے انکاری تھی جبکہ بھارتی بحری فوج کی موجودگی میں بھی مسلسل مزید اضافہ ہورہا تھا۔ چنانچہ اس کا صاف صاف مطلب یہی تھا کہ ابراہیم محمد صالح کی حکومت ایک کٹپتلی کی طرح بھارت کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔

اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بھارتی ہائی کمیشن نے حال ہی میں مالدیپ کے ایک جزیرے ادٌو میں اپنا کونسل خانہ کھولنے کا اعلان کیا جس کے بارے میں سابق صدر عبداللہ یامین نے کہا کہ یہی وہ جزیرہ ہے جہاں بھارت اپنا نیول بیس قائم کرنا چاہتا ہے۔
 بھارت کے خلاف حال ہی میں مالدیپ کی سول سوسائٹی میں غم و غصہ تب بڑھا جب مالدیپ کی ایک مقامی نیوز ایجنسی دھیاریس سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان صحافی احمد ازان نے بھارتی افواج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف لکھا اور اسے مالدیپ میں بھارتی نوآبادیاتی منصوبہ قرار دیا۔

اس کے بعد مالدیپ بھر میں "انڈیا آؤٹ" یعنی بھارت ہمارے ملک سے باہر جاؤ کی یہ مہم زور پکڑنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک ٹاپ ٹرینڈ بن کر کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا میں سرِ فہرست رہی۔ اس کے نتیجے میں بھارت اسقدر خوفزدہ ہوا کہ بھارتی ہائی کمیشن نے اس مہم جوئی کے خلاف سخت ترین الفاظ بھی استعمال کیئے۔ یعنی ایک چھوٹے سے ملک کے ایک نوجوان صحافی نے 130 کروڑ آبادی والے ملک کو اپنے قلم کے زور سے گویا ہلا کر رکھ دیا ہو۔


پاکستان کی جانب سے خودمختار ممالک کے سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اگرچہ بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی بنیادوں پر تو درست ہے مگر جب ایک ملک کا سامنا ایک ایسے ہمسایہ ملک سے ہو جہاں نازی جرمنوں کے نظریات سے متاثر ہونے والی نسل پرست اور پرتشدد سوچ برسرِ اقتدار ہو تو تب اسے بھی ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھ سکے۔

چنانچہ یہ بات تو طے ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے جو اقدامات اپنے ملک کے اندر مسلمانوں کو دبانے کے لئے مقبوضہ کشمیر اور مسلم اکثریتی یونین ٹیریٹوری لکشادیپ میں اٹھائے ہیں اب اس اسی طرز کی کاروائی وہ ارد گرد کے چھوٹے اور کمزرو ممالک میں بھی کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ مالدیپ اس کا سب سے پہلا ٹارگٹ بظاہر دکھائی دے رہا ہے جو مالدیپی حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں سے صاف دکھائی دیتا ہے۔

ابراہیم محمد صالح کی حکومت کو تو بھارت کی فاشسٹ حکومت نے اسقدر اپنی کٹپتلی بناکر رکھا ہے کہ حال ہی میں جب پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد پیش کی تو اسے مالدیپ کے مستقل مندوب نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس قرارداد میں مودی حکومت کی مسلم مخالف سرگرمیوں کا بھی ذکر تھا۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر پاکستان کی حکومت کو کم از کم اتنا تو کرنا ہوگا کہ اسے بھی مالدیپ کے شہریوں کے جمہوری حق کے لئے اسی طرح اخلاقی حمایت کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس طرح وہ دیگر مسلمان ممالک میں کسی بھی غیر جمہوری یا غیر اسلامی سرگرمیوں کے ہونے کے خلاف کرتے ہیں۔

اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت پر اگر زیادہ نہیں مگر اتنا دباؤ تو ضرور آسکے گا کہ وہ مالدیپ میں اپنے مبیّنہ فوجی اور نیول اڈوں کے قیام کے منصوبے کو ملتوی کردے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :