
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021

عمران خان شنواری
(جاری ہے)
اس کے برعکس شمالی اتحاد کو روس، وسطی ایشیاء، ایران، بھارت اور ترکی کی جانب سے مکمل فنڈنگ اور اسلحہ مہیاء کیا جاتا تھا۔
لیکن اس کے باوجود بھی شمالی اتحاد افغانستان کے محض 10 فیصد علاقے سے زیادہ علاقہ طالبان سے چھیننے میں کامیاب نا ہوسکی۔آج کے حقائق 1996 سے بالکل مختلف ہیں۔ طالبان کے پاس اس وقت نا صرف افغان آرمی سے چھینا گیا جدید امریکی اسلحہ موجود ہے بلکہ اس کی فوج پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور بھی ہے کیونکہ 1996 میں طالبان کے جنگجو عموماً ان لوگوں پر مشتمل تھے جن مین کسی کا ہاتھ نہیں ہوتا تھا اور کوئی افغان جہاد کے دوران آنکھ یا ٹانگ سے محروم تھا۔ مگر آج کے طالبان کے پاس بدری 313 جیسی انتہائی تربیت یافتہ بٹیلین موجود ہے جو بیس سال تک پہاڑوں اور بیابانوں میں لڑ کر مزید سخت جان ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس احمد مسعود کی ملیشیا نے 20 سال سے کوئی جنگ نہیں لڑی اور جو افغان آرمی کے بھاگے ہوئے فوجی بھی ان کے ساتھ شامل ہیں ان کی کارکردگی تو پہلے ہی سب کے سامنے واضح ہوچکی ہے۔
ڈپلومیٹک سطح پر بات کی جائے تو طالب کو سوائے بھارت کے ان تمام ممالک بشمول ایران، روس اور ترکی کی حمایت حاصل ہے جو کبھی شمالی اتحاد کو حاصل ہوا کرتی تھی۔ روس جو کہ پاکستان کے گرم پانیوں کی چاہ میں افغانستان پر قابض ہوا تھا اسے وہ موقع اب سی پیک کے ذریعے حاصل ہو رہا ہے اور وہ بھی بنا کسی ملک پر قبضہ کیئے۔ چنانچہ روس کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ جس راستے سے گوادر تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ملک خانہ جنگی کا شکار بنے۔ اسی طرح افغانستان لیتھیئم کے خزانے سے مالا مال ملک ہے جو چین کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کیونکہ موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک کے اشیاء کی پیداوار میں چین کو اس وقت دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ ان تمام الیکٹرانک سامان کی بیٹریوں کے لئے اسے بڑے پیمانے پر لیتھیئم درکار ہوگی اور اس امر میں چین کو افغانستان سے تجارتی تعلقات قائم کرنے ہونگے۔ لہذا یہ سب تب ممکن ہوگا جب کابل میں ایک پائیدار حکومت قائم ہوگی۔ اسی طرح جب سے طالبان اور سعودی عرب کے تعلقات ختم ہوئے ہیں تب سے ایران بھی طالبان سے اچھے تعلقات استوار کرنے میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے ۔ یعنی طالبان کی افغانستان پر گرفت مظبوط ہونا ہی ان تمام ممالک کے مفادات میں ہے۔ لہذا ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں کوئی بھی خانہ جنگی ہو۔ ان سب کی کوشش یہی ہوگی کہ احمد مسعود طالبان اور دیگر گروہوں کو ملاکر ایک جامع حکومت قائم ہو۔ تو ان تمام پوائنٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت اس وقت جو شمالی اتحاد کے قیام سے افغانستان میں دوبارہ پیر جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے وہ اب ممکن نہیں دکھائی دیتا کیونکہ طالب 2.0 اب پہلے کی نسبت کافی بدل چکا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران خان شنواری کے کالمز
-
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022
-
پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021
-
"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"
منگل 3 اگست 2021
-
"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"
بدھ 28 جولائی 2021
عمران خان شنواری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.