"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"

منگل 11 جنوری 2022

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

پاکستان کی تشکیل کے بعد 1947 سے لیکر 1971 تک 8 وزرائے اعظم 3 گورنر جنرلز اور 3 صدور نے اس نئی ریاست میں اقتدار کی کرسی سنبھالی جن میں سے 4 وزرائے اعظم 1 گورنر جنرل اور ایک صدر کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جبکہ 2 وزرائے اعظم اردو بولنے والے مہاجر تھے اور دو کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا، ایک گورنر جنرل گجراتی یعنی قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور دو صدور پختون یعنی ایوب خان اور ان کے بعد یحیٰی خان تھے۔

اس کے علاوہ فوج میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد بنگالی سپاہیوں اور افسران پر مشتمل تھی۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اقتدار میں مشرقی پاکستان کو اتنی زیادہ نمائندگی ملنے کے باوجود بھی عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن کو کیوں ایسا لگتا تھا کہ بنگال یعنی (مشرقی پاکستان) کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی ؟
یہ بات حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اسباب معاشی و سماجی تو تھے ہی مگر ان وجوہات سے زیادہ یہ ایک سیاسی مسئلہ بھی تھا۔

(جاری ہے)

ایک طویل مارشل لاء کے ختم ہونے کے بعد اقتدار کی حوس نے دونوں جانب کے سیاست دانوں کو اسقدر اندھا کردیا تھا کہ انہیں ملک کی سرحدوں کی پرواہ نا تھی بس کسی نا کسی طرح سے اقتدار حاصل کرنا ہی انہیں مقصود تھا۔ اس کے علاوہ دونوں جانب کے رہنما جس طرح سے خود کو عوام کے نمائندے پیش کرتے تھے حقیقت اس کے برعکس تھی۔ بھارتی بنگال سے تعلق رکھنے والی مصنفہ شرمیلا بوس اپنی کتاب "ڈیڈ ریکنِنگ" میں لکھتی ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو جس طرح بنگالیوں کا ہیرو بناکر پیش کیا گیا تھا حقیقت اس کے برعکس تھی۔

ان کے مطابق 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ مغربی پاکستان میں رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں ووٹر ٹرن آؤٹ 53 فیصد تھا جبکہ پنجاب میں 67 فیصد رجسٹرڈ لوگوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اسی طرح عوامی لیگ کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 75 فیصد تھا یعنی اس بنیاد پر مشرقی پاکستان کے 42 فیصد عوام نے عوامی لیگ کے لئے ووٹ کاسٹ کیا اور باقی 56 فیصد لوگوں نے گھر پر ہی رہنے کو زیادہ ترجیح دی کیونکہ اس انتخاب میں نا ہی پیپلز پارٹی یا عوامی لیگ کی کسی متبادل جماعت نے کوئی نمائندہ مشرقی پاکستان سے کھڑا کیا تھا اور نا ہی عوامی لیگ نے 7 سے زیادہ نمائندے مغربی پاکستان سے کھڑے کیئے تھے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کی 138 نشستوں میں  سے صرف 80 نشستیں ہی حاصل کی تھی جبکہ باقی نشستیں نیشنل عوامی پارٹی، مسلم لیگ اور مفتی محمود کی جماعت جمیعتِ علمائے اسلام نے حاصل کی تھی۔ عموماً حکومت سازی کا حق اس جماعت کو ملتا ہے جس کے پاس اکثریت ہو اور عوامی لیگ کے کے پاس نا صرف زیادہ نشستیں تھی بلکہ اکیلے ہی وہ حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں تھی۔

مگر ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بننے کے لئے بضد تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں 80 نشستوں کی بنیاد پر ہی وزیراعظم بنایا جائے جو جمہوری طور پر ایک ناقابلِ قبول عمل تھا۔
 دوسرا سب سے اہم نکتہ جس کی طرف شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عوامی لیگ نے انتخابات صرف فوجی حکومت کی جانب سے مشرقی پاکستان سے کیئے جانے والے متعصبانہ رویوں کے خلاف اور حقوق کے حصول کی بنیاد پر لڑا نا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل کے غرض سے لہذا یہ بات بھی 100 فیصد وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ 42 فیصد بنگالیوں نے عوامی لیگ کو ووٹ اس لئے دیا کیونکہ وہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کسی بھی صورت میں متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے اور یحییٰ خان بھی انہیں ہی اقتدار کی منتقلی کی تیاری کر رہے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو وہ رکاوٹ بنے جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمٰن نے نا صرف علیحدگی بلکہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ کیونکہ شرمیلا بوس کی تحقیق کے مطابق وہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی 1972 تک شیخ مجیب الرحمٰن اسی امید میں تھے کہ انہیں پاکستان کی وزارتِ عظمی دے دی جائے تو وہ بنگلہ دیش سے دستبردار ہو جائیں گے حتیٰ کہ اس وقت کی پاکستان کی فوج کے ایک سینئر بنگالی افسر نے اسے یہ تک پیشکش کردی تھی کہ وہ تمام بنگالی فوجیوں کو اکھٹا کرکے ایک منظم بغاوت کے لئے بھی تیار تھے مگر شیخ مجیب الرحمٰن نے اُسے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ مذاکرات کے حتمی نتیجے کے منتظر ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ مجیب کو کسی بھی صورت میں صرف وزیراعظم بننا تھا جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہے تھے۔

وہ دراصل سیاسی دنگوں اور فساد کے ذریعے مغربی پاکستان کے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے تاکہ متحدہ پاکستان کا اقتدار ان کے حوالے کیا جائے کیونکہ ان کے مطابق عوام کا مینڈیٹ ان کے پاس تھا۔ تو اس تمام تاریخی واقعات سے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نا ہی بنگالی علیحدہ ہونا چاہتے تھے اور نا ہی یہ بات حقیقت تھی کہ بنگالیوں کو اقتدار میں مناسب حصہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ وہ اقتدار کی حوس تھی جو اپنے ساتھ پورے بنگال کو لے ڈوبی۔

اگر مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے پاکستان کے ایک اہم حصے پر اپنی اقتدار کی بھوک کو ترجیح نا دی ہوتی تو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو مداخلت کا موقع نا ملتا اور نا ہی اندرا گاندھی کو دہلی کے لال قلعے پر کھڑے ہوکر فخر سے یہ تاریخی جملہ کہنے کا موقع ملتا کہ "آج ہم نے جناح کے نظریہِ پاکستان کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے"۔ کاش کہ ہمارے موجودہ پاکستان کے سیاست دان بھی تاریخ کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ لیں اور سیاست میں "حرفِ آخر" کی روش کو ترک کے ملکی سلامتی کو اپنی اولین ترجیح رکھیں تو مستقبل میں سقوطِ ڈھاکہ جیسے دلخراش سانحات کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :