
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022

عمران خان شنواری
یہ بات حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اسباب معاشی و سماجی تو تھے ہی مگر ان وجوہات سے زیادہ یہ ایک سیاسی مسئلہ بھی تھا۔
(جاری ہے)
دوسرا سب سے اہم نکتہ جس کی طرف شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عوامی لیگ نے انتخابات صرف فوجی حکومت کی جانب سے مشرقی پاکستان سے کیئے جانے والے متعصبانہ رویوں کے خلاف اور حقوق کے حصول کی بنیاد پر لڑا نا کہ بنگلہ دیش کی تشکیل کے غرض سے لہذا یہ بات بھی 100 فیصد وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ 42 فیصد بنگالیوں نے عوامی لیگ کو ووٹ اس لئے دیا کیونکہ وہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کسی بھی صورت میں متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بننا چاہتے تھے اور یحییٰ خان بھی انہیں ہی اقتدار کی منتقلی کی تیاری کر رہے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو وہ رکاوٹ بنے جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمٰن نے نا صرف علیحدگی بلکہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ کیونکہ شرمیلا بوس کی تحقیق کے مطابق وہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی 1972 تک شیخ مجیب الرحمٰن اسی امید میں تھے کہ انہیں پاکستان کی وزارتِ عظمی دے دی جائے تو وہ بنگلہ دیش سے دستبردار ہو جائیں گے حتیٰ کہ اس وقت کی پاکستان کی فوج کے ایک سینئر بنگالی افسر نے اسے یہ تک پیشکش کردی تھی کہ وہ تمام بنگالی فوجیوں کو اکھٹا کرکے ایک منظم بغاوت کے لئے بھی تیار تھے مگر شیخ مجیب الرحمٰن نے اُسے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ مذاکرات کے حتمی نتیجے کے منتظر ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ مجیب کو کسی بھی صورت میں صرف وزیراعظم بننا تھا جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہے تھے۔ وہ دراصل سیاسی دنگوں اور فساد کے ذریعے مغربی پاکستان کے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے تاکہ متحدہ پاکستان کا اقتدار ان کے حوالے کیا جائے کیونکہ ان کے مطابق عوام کا مینڈیٹ ان کے پاس تھا۔ تو اس تمام تاریخی واقعات سے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نا ہی بنگالی علیحدہ ہونا چاہتے تھے اور نا ہی یہ بات حقیقت تھی کہ بنگالیوں کو اقتدار میں مناسب حصہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ وہ اقتدار کی حوس تھی جو اپنے ساتھ پورے بنگال کو لے ڈوبی۔ اگر مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے پاکستان کے ایک اہم حصے پر اپنی اقتدار کی بھوک کو ترجیح نا دی ہوتی تو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو مداخلت کا موقع نا ملتا اور نا ہی اندرا گاندھی کو دہلی کے لال قلعے پر کھڑے ہوکر فخر سے یہ تاریخی جملہ کہنے کا موقع ملتا کہ "آج ہم نے جناح کے نظریہِ پاکستان کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے"۔ کاش کہ ہمارے موجودہ پاکستان کے سیاست دان بھی تاریخ کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ لیں اور سیاست میں "حرفِ آخر" کی روش کو ترک کے ملکی سلامتی کو اپنی اولین ترجیح رکھیں تو مستقبل میں سقوطِ ڈھاکہ جیسے دلخراش سانحات کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران خان شنواری کے کالمز
-
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022
-
پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021
-
"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"
منگل 3 اگست 2021
-
"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"
بدھ 28 جولائی 2021
عمران خان شنواری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.