"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"

بدھ 28 جولائی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات سے متعلق عمومی طور پر تمام تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کی یہی رائے ہوتی ہے کہ مظفرآباد میں حکومت اسی جماعت کی ہوتی ہے جس کے پاس پاکستان کی وفاقی حکومت کی بھاگ دوڑ ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کو جس طرح سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عمران خان کے خلاف عوامی فیصلہ بتایا جارہا تھا اس سے یہی رائے سامنے آنے لگی تھی کہ شاید اس مرتبہ کشمیری عوام وہی انداز اپنائیں جو ستٌر کی دہائی میں اپنایا گیا تھا جب آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی اور سردار عبد القیوم خان آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔

چنانچہ سردار صاحب چاہتے تھے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں کشمیر کے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کریں اور اسے یہاں کے مقامی سیاسی جماعتوں تک ہی محدود رہنے دیں۔

(جاری ہے)

مگر  ذولفقار علی بھٹو اس کے برعکس آزاد کشمیر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے۔ اسی چپکلش کے نتیجے میں بھٹو کو سردار عبد القیوم کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کرنا پڑا۔

اس کے بعد سے آزاد کشمیر میں ایک روایت سی بن گئی کہ جو بھی سیاسی جماعت اسلام آباد میں حکومت کرے گی اسی طرح آزاد کشمیری بھی انہی کو ووٹ دیں گے تاکہ وفاق اور مظفرآباد میں ہم آہنگی برقرار رہ سکے۔ مگر اس مرتبہ جس طرح کی طوفانی مہم جوئی مریم نواز صاحبہ کی جانب سے کی گئی اس سے یہی اندازہ لگایا جارہا تھا کہ شاید اس مرتبہ کشمیر میں لہروں کا رخ کپتان کے بجائے مخالف سمت میں چلا جائے۔

مگر 25 جولائی کو نتیجہ اس کے مکمل برعکس آیا۔
تحریکِ انصاف کی آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کے کئی اہم وجوہات ہیں جن پر انتخابی مہم کے دوران مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے یکسر غور و فکر نا کیا بلکہ انہوں نے وہی اسٹریٹیجی اپنائی جو انہوں نے پاکستان کی مرکزی سیاست میں ایک عرصے سے اپنا رکھی ہے۔ تحریکِ انصاف کو دیگر جماعتوں پر سبقت اس لئے حاصل تھی کیونکہ ان کے پاس وفاقی حکومت ہے اور وفاق کی وزارتِ کشمیر کے تحت ہی تمام فنڈ کشمیر اور گلگت بلتستان کو مہیا کیئے جاتے ہیں۔

چنانچہ آزاد کشمیر کے ووٹرز یہی سوچ کر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں کہ مظفرآباد میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو ان کے مسائل کو حل کرے نا کہ اسلام آباد سے محاذ آرائی کرکے ریاست کو معاشی نقصان سمیت کشمیر کاز کو بھی اندونی خلفشار کا شکار بناکر بھارت کو پراپیگنڈا کرنے کا موقع فراہم کریں جسے یہاں کی عوام بھٹو کے دور میں پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔
عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کو پاکستان واپس لانے یا کرپشن کی وہی پرانی کہانیاں دہرانے کے بجائے اس مرتبہ اپنا ٹارگیٹ مقامی مسائل پر رکھا اور سب سے پہلے یہ بیان دیا کہ وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو یہاں ریفرینڈم کرواکر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا موقع فراہم کریں گے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک خودمختار ریاست بننا چاہتے ہیں۔

اس سیاسی بیان سے عمران خان نے مسلم کانفرنس کا وہ ووٹ بینک بھی اپنی طرف کھینچ لیا جو کشمیر کو مستقبل میں آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اصطوابِ رائے کے دوران صرف پاکستان یا بھارت میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس مریم نواز نے کشمیریوں کے مسائل کو بیک برنر میں رکھ کر عمران خان کے خاندان کو ٹارگٹ کیا جس کی وجہ سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انکی ایک انتہائی منفی تصویر پیش ہوئی۔

نتیجتاً اس کا ڈائریکٹ فائدہ تحریکِ انصاف کو پہنچا۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے انتخابات سے قبل افغانستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب سے ملاقات کرکے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی ماری کیونکہ اس شخص کی جانب سے پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیئے جانے کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے اس کا ڈپلومیٹک بائکاٹ کیا ہوا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی کو تو گویا ن لیگ کے خلاف میاں نواز شریف نے خود ہی کہہ دیا ہو کہ "آ بیل مجھے مار"۔
آزاد کشمیر چونکہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے جہاں کی عوام آئے روز بھارتی فائرنگ اور گولا باری کا شکار ہوتی ہے اس لئے وہاں قدرتی طور پر افواجِ پاکستان کے لئے مقامی آبادیوں میں محبت کا عنصر زیادہ ہے بنسبت پاکستان کے دیگر علاقوں کے۔

ایسے میں کیسے کوئی جماعت یہ امید لگا سکتی ہے کہ وہ اپنی مخالف جماعت کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی جماعت کا الزام لگائے گی اور اسے اس کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا ؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے مریم نواز اور بلاول خود ہی کشمیریوں کو بتا رہے ہوں کہ فوج سے مخلص جماعت تحریکِ انصاف ہے اور ووٹ بھی انہی کو دیا جائے۔ چناچہ کپتان نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سنگین غلطیوں اور اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرکے فُل سوئنگ میں کھیل کر بالآخر کشمیر کا انتخابی میدان مارلیا اور مسلم لیگ کے گرھ لاہور، گجرانوالہ اور راولپنڈی جیسے علاقوں میں بھی کشمیریوں کا بھاری ووٹ حاصل کیا جس کا فائدہ انہیں آئندہ بلدیاتی اور 2023 کے عام انتخابات میں بھی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :