
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021

عمران خان شنواری
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صدرِ پاکستان عارف علوی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور یہاں تک کہ سندھ حکومت کے تمام وزیر مشیر کلفٹن کینٹ کے علاقے ڈیفینس میں رہتے ہیں مگر آج تک ان میں سے کسی کو بھی یہ خیال نا آیا کہ اسی کلفٹن کینٹ کا حصہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی، شیرین جناح کالونی تو دور بلکہ ان علاقوں میں بھی پانی کی رسائی ممکن نا بنائی جاسکی جہاں کراچی کا امیر طبقہ اپنے محل نما بنگلوں میں رہائش پذیر ہے۔
(جاری ہے)
سال 2020 کی تباہ کن بارشوں سے پورا کراچی ڈوب چکا تھا جس میں کلفٹن کنٹونمنٹ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا کیونکہ نکاسی آب کا نظام نا ہونے کی وجہ سے بارش کے پانی نے تو رکنا ہی تھا۔ اُسوقت دونوں صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے دکھاوے کے لئے کام شروع کیا اور ساتھ میں کئی دعوے اور وعدے بھی کیئے مگر بدقسمتی سے آج بھی کراچی شہر خدا کے آسرے پر ہے کیونکہ نکاسی آب کا مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔
جیسے ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تو اس کے فوراً بعد تمام سیاسی جماعتوں کو اس لاوارث شہر کا خیال آگیا کہ اس شہر کے لوگوں کو ایک مرتبہ دوبارہ سُہانے خواب دکھادیئے جائیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صاحب کو بھی یاد آگیا کہ کراچی کی کسی گلی میں نیا بلب لگاکر یا پھر کسی سڑک کی لین مارکنگ کرکے اس کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے کراچی کے شہریوں کو دکھانا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس شہر کی کتنی خدمت کی ہے۔ جبکہ انہی کی صوبائی حکومت کی بے حسی کو دیکھ کر اور اس شہر کی زبوحالی دیکھ کر ایک مشہور بزنس مین کو اس شہر پر ترس آیا اور کلفٹن میں ایک انڈر پاس تعمیر کیا۔
دوسری جانب اسد عمر صاحب نے بھی اعلان کیا کہ وفاقی حکومت جلد سرکولر ریلوے میں ڈیزل سے چلنے والی ریل گاڑیوں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ الیکٹرک ریل چلائیں گے۔ اگرچہ وہ بات الگ ہے کہ سال بھر ہونے کو ہے مگر آج تک نا ہی کے سی آر کا اصل ٹریک اب تک بحال ہوسکا اور نا ہی نواز شریف حکومت کے ابتدائی سالوں میں شروع ہونے والی گرین لائن کا آغاز پی ٹی آئی کے تیسرے سال میں بھی ہوسکا ۔ میاں شہباز شریف بھی کراچی آئے تو یہاں بھی انہوں نے کراچی کے مسائل سے زیادہ پنجاب کی سیاست کو اپنی تقریروں کا محور بناکر رکھا بلکہ پی ڈی ایم کا پورا جلسہ ہی کراچی کے بجائے اسلام آباد کی سیاست پر کراچی میں منعقد کیا۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے میئر وسیم اختر بھی پچھلے پانچ سال سے اختیارات اور فنڈز کی قلت کا رونا روتے ہیں اگرچہ وہ بات الگ ہے کہ ان کی جماعت وفاقی حکومت کا حصہ ہے اور اگر یہ چاہتے تو اپنا وفاقی اثر ورسوخ استعمال کرکے کراچی کے لوگوں کی حالتِ زار کو کچھ بہتر کرسکتے تھے۔
تو ان تمام باتوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی ایسا شہر ہے جہاں کوئی بھی اس کی ذمے داری لینے کے لئے تیار نہیں لیکن جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کراچی چلا آتا ہے جو ملک کے لئے ایک المیہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران خان شنواری کے کالمز
-
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022
-
پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021
-
"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"
منگل 3 اگست 2021
-
"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"
بدھ 28 جولائی 2021
عمران خان شنواری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.