"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"

جمعرات 16 ستمبر 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

20 سالہ قبضے اور جنگ و جدل کے بعد امریکی فوج تھک ہار کر 31 اگست کو افغانستان سے اپنا بوریہ بستر باندھ کر نکل گئی۔ افغان طالبان نے اس وقت تک پنجشیر کے علاوہ پورے افغانستان پر اپنا قبضہ قائم کرلیا تھا۔ لیکن خوش آئند بات یہ تھی کہ طالبان نے کابل میں انتقامی کارروائیوں کے بجائے اپنے سخت ترین دشمنوں کو بھی معاف کرنے کا اعلان کیا۔

سابقہ دور میں جہاں خواتین کو ٹوپی والا برقعہ پہن کر گھر سے اپنے بھائی شوہر یا باپ کے بغیر نکلنے نہیں دیتے تھے اج کابل میں خواتین کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بھی اجازت دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جہاں انہوں نے عام معافیاں دی وہی پنجشیر میں جمع ہوئے مزاحمت کاروں کو بھی ہتھیار ڈالنے کی شرط پر عام معافی کی پیشکش کی مگر انہوں نے مزاحمت جاری رکھی۔

(جاری ہے)

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجشیر پر حملے کے دوران احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی فہیم دشتی سمیت ان کے بھانجے عبدالودود ظہور بھی دیگر کمانڈروں کے ساتھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگرچہ طالبان کے رویوں میں اونچ نیچ تو دکھائی دے رہی ہے مگر ان کے سیاسی چہروں کی بات کی جائے تو ان میں پہلے کی نسبت کافی بدلاؤ دیکھنے کو ملا ہے۔ لیکن طالبان افغانستان میں کس طرح سے حکومت کرتے ہیں اس سے یہ بھی سوال جنم لیتے ہیں کہ ان کے رویوں سے اس کے پڑوس میں واقع ایک برادرِ اسلامی ملک پاکستان کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے پر کیا فرق پڑے گا ؟
طالبان کی جانب سے پہلے شہر سپین بولدک پر قبضہ کیا گیا تو تب پاکستان میں بھی چمن اور کوئٹہ کے شہری چمن بارڈر کے قریب پہنچے اور طالبان کا پرچم لہراتے ہوئے جشن مناتے ہوئے دکھائی دیئے گئے۔

اسی طرح پشاور میں بھی طالبان کے حق میں ریلیاں نکالی گئی۔ اگرچہ چند تجزیہ نگاروں کا یہ خیال بھی ہے کہ پاکستان میں عوام کی جو اکثریت طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں یہ دراصل وہ لوگ ہیں جو بھارت کے افغانستان میں اثر ورسوخ ختم ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ کیونکہ کابل پر طالبان کے قبضے سے بھارت اس قدر صدمے کا شکار ہوا ہے کہ مودی سرکار کے پراپیگنڈا نیوز چینل 15 اگست سے اب تک 24 گھنٹے صرف اسی موضوع پر پروگرام کر رہے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور پاکستان وہاں کیا کر رہا ہے۔

کچھ بھارتی چینل تو اس حد تک بھی چلے گئے کہ ایک مشہور ویڈیو گیم کی وڈیو کلپس نشر کرکے اسے پاکستان کے پنجشیر پر ہوائی حملوں سے منسوب کردیا۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں سمیت دنیا بھر کی مسلح و غیر مسلح مذہبی تنظیموں نے طالبان کو مبارکبادیں بھیجی ہیں۔
پاکستانی بھلے ہی اس حقیقت سے انکار کرتے رہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں مگر ماضی کے تلخ تجربات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

  1996 جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تب پاکستان میں بھی وہ جہادی سر اٹھانے لگے تھے جنہوں نے روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ مولوی صوفی محمد نے تحریکِ نفاذِ شریعت کا اعلان کرکے مالاکنڈ پر قبضہ کیا اور ریاست کو باقائدہ چیلنج کیا تھا۔ حکومت نے تب بھی بالکل ویسے ہی حقائق کو نظر انداز کیا تھا جو مالاکنڈ میں رجعت پسندانہ سوچ میں اضافے کا باعث بنا۔

یہاں تک کہ بعد میں بات اس حد تک پہنچ گئی تھی کے وادی سوات پر اس کے داماد ملا فضل اللہ (جسے مقامی سطح پر ملا ریڈیو بھی کہا جاتا تھا) نے باقائدہ قبضہ کرکے اپنی خود ساختہ شریعت کا اعلان کیا۔ بعد میں حکوت کو تب خیال آیا کہ جب منگورہ کی چوک پر آئے روز کسی نا کسی کی لاش لٹکی ہئی نظر آتی تھی تو تب حکومت نے آپریشن راہِ راست کا اعلان کرکے سوات کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا۔


پچھلی طالبان حکومت کے دوران پاکستان میں ان کا زیادہ اثر خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں میں دکھائی دیا مگر اس مرتبہ پاکستان کو زیادہ خطرہ پنجاب میں پنپتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ سے ہوسکتا ہے۔ جس طرح کالعدم تحریک لبیک نوجوانوں کو مسلسل تششد کرنے کے لئے اکساتی ہے یہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان نے لاہور کے شاہی قلعے میں راجا رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑا جو بعد میں معلوم ہو کہ پکڑا جانے والا شخص ٹی ایل پی کے نظریات سے متاثر تھا۔

اس کے علاوہ کئی ایسے اکاؤنٹس جو سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت اور پاکستان میں طالبان جیسا نظام لانے کے مطالبات کرتے دکھائے دیئے ان میں اکثر لوگوں کی پروفائل پکچر پر تحریک لبیک کا لوگو یا پھر خادم حسین رضوی کی تصویر لگائی گئی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستِ کو آئندہ ٹی ٹی پی سے زیادہ خطرہ پنجاب میں پنپتی ہوئی اس نئی انتہا پسندی سے ہوگا جسے وقت پر قابو کرنا ہوگا۔

ورنہ بادل ناخواستہ پاکستان کو پھر سے ٹی ایس این ایم 2.0 کا سامنا تحریکِ لبیک کی صورت میں کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹی ٹی پی کی کاروائیوں کو روکنے کے لئے حکومتِ کو نئی افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایسا میکینزم بنانا چاہئے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف کاروائیوں کے لئے افغان سرزمین کا استعمال نا کرسکے۔ حال ہی میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھی کہ ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر ملا فقیر کو رہا کردیا گیا تھا۔

جو بعد میں معلوم ہوا کہ اسے اشرف غنی انتظامیہ کے دور میں رہا کیا گیا تھا۔ چنانچہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان نے اپنی پالیسی واضح کی ہے جس کی مثال حال ہی میں افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈروں پر افغانستان میں داخلے پر پابندی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ افغان طالبان اب بتدریج پاکستانی طالبان سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کروانے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور اب افغانستان میں تمام دھڑوں کے اختلافات دور کرکے ایک جامع حکومت قائم کرنے میں بھی مدد کر رہا ہے ممکن ہے کہ پاکستان کے انہی اقدامات سے افغان طالبان مستقبل میں پاکستان سے تعاون کرکے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کریں گے۔ بہرحال، جس طرح پاکستان خطے میں ایک اہم پلیئر بن کر ابھرا ہے اس کا پاکستان کو اپنے مفادات کی روشنی میں بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اپنے کارڈز سوچ سمجھ کر کھیلنے چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :