"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"

ہفتہ 31 جولائی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ نے حال ہی میں آزاد کشمیر کے سیاسی محاذ پر جب بڑے بڑے جلسے کیئے تو اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ یہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو اتنخابی معارکے میں ٹف ٹائم دیکر آزاد کشمیر میں ایک مقبول چہرہ بن کر ابھریں گی۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن کے حوصلے تب بلند ہوئے جب کچھ ہی عرصہ قبل منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس کے بعد سے تو گویا مریم نواز صاحبہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر یہی تصور کرنے لگی کہ اب انہیں اس حکومت کو گرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب اتنی عوامی حمایت مسلم لیگ ن کو پہلے ہی حاصل ہو رہی تھی تو اس کے باجود انہیں کیا ضرورت آن پڑی کہ مریم نواز صاحبہ ایسے معاملات پر حکومت پر تنقید کرنے لگی جس کا تعلق ملک کی سیکیورٹی سے وابسطہ ہو اور جس سے ملک دشمن عناصر کو فائدہ پہنچ سکتا ہو؟
بدقسمتی سے پاکستان میں قومی دھارے کی ہر ایک جماعت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب یہ اقتدار میں نہیں ہوتے تب یہ اپنی نادانیوں کے باعث ایسے اقدامات یا بیانات جاری کردیتے ہیں جو بعد میں غیر ملکی سطح پر پاکستان کے ہی خلاف بطور سیاسی ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کی سب سے پہلی مثال مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا 1994 میں امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کو دیئے جانے والا وہ انٹرویو تھا جس میں انہوں نے پاکستان کے عسکری اداروں پر منشیات کا کاروبار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اگرچہ نواز شریف ایسا کوئی انٹرویو دینے کے الزام کو رد کرتے رہے اور نا ہی ایسا کوئی الزام پاکستان کی افواج پر ثابت ہوسکا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک کو پراپیگنڈا اور ہرزہ سرائی کرنے کا موقع ملا جو پاکستان کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔

میاں صاحب نے ہی اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں ایک صحافی سرل المیڈا کو انٹرویو دیکر بھارت کے منہ میں پاکستان کے خلاف لقمہ دیا کہ پاکستان ممبئی دھماکوں میں ملوث تھا جس کی وجہ سے بھارت اور پودی دنیا کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں یہ ایک شہ سرخی بنی کہ پاکستان کے وزیراعظم نے خود ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم لیگ ان ماضی کی غلطیوں سے آج بھی کچھ نا سیکھ سکی۔

مریم نواز صاحبہ آج بھی آزاد کشمیر میں کھڑے ہوکر حکومت سے سوال کرتی ہیں کہ افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل اسلام آباد سے کیوں اغواء ہوئی جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے جس پر سیاست کرنے کے بجائے حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو مل کر ایک ہی بیانیہ اپنانا چاہیے۔ مگر کیا کہیے کہ جب ان کے ایک ممبر (جو قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں) نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر اپنی افواج کے بارے میں یہ الزام لگایا کہ بھارتی پائلٹ ابھینندن کو فروری 2019 میں گرفتار کرنے کے بعد پاکستانی جرنیلوں کی ٹانگیں کانپ رہی تھی نے ایک انتہائی افسوسناک المیے کو جنم دیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار کی دوڑ میں کس حد تک جاسکتی ہیں۔

جبکہ حقیقت اس بیان کے برعکس یہ تھی کہ اگر حکومت اور عسکری ادارے واقعی بھارت سے خوفزدہ ہوتے تو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھارت کے بارہا احتجاج کے باوجود بھی قید نا رکھتے بلکہ پہلے ہی اسے آزاد کرچکے ہوتے۔
 اسی طرح عمران خان صاحب کے 2014 کے دھرنوں کے باعث بھی پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ چینی صدر جو ایک تاریخی دورے پر اگست 2014 میں پاکستان آنے جارہے تھے وہ دورہ ڈی چوک پر بیٹھے تحریکِ انصاف کے کارکنان اور خان صاحب کی کنٹینر سیاست کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔

چنانچہ پوری دنیا ایک تذبذب کا شکار تھی کیونکہ پاکستان میں ایک بار پھر سے جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ انجانے میں ہی سہی مگر پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست نے بھی 2011 سے 2018 کے درمیان اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر معاشی نقصان پہنچایا جس کا اندازہ آج حکومت میں رہ کر خود بھی خان صاحب کو ہوچکا ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری جو پاکستان میں نوجوانوں کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے بیانات اگرچہ اسقدر سنگین الزامات پر مبنی نہیں ہوتے مگر ان کی جماعت بھی پارلیمنٹ میں ایسے قوانین بنانے میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کرتی ہے جو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔

اس کی مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو کونسلر رسائی کے حوالے سے بل میں رکاوٹ ڈالنا ہے جس کا پاکستان بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے تحت حکم عدولی کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے سلسلے میں بھی انکی جماعت نے قانون سازی میں تعاون نا کیا جس کا خمیازہ حال ہی میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھگتنا پڑا۔


بہرحال مریم نواز صاحبہ ہو عمران خان ہو بلاول بھٹو زرداری یا پھر کوئی اور ہو یہ سب اپوزیشن میں آکر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قومی سلامتی کے مسائل پر سیاست کرنے سے نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہی ہوتا ہے۔ ان کے برعکس بھارت اور امریکہ میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ڈیموکریٹک پارٹی ہو یا ریپبلکن، کیجریوال کی عام آدمی پارٹی ہو یا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نیز یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں جب بات انکے ملک کے قومی مفاد سے وابسطہ ہو۔

اس کے برعکس پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا یہ تیسرا دور ہے مگر اب بھی قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں سیاسی بلوغت پیدا نہیں ہوئی۔ چنانچہ انکی یہی باغیانہ سیاست پاکستان کو ہمیشہ جانے انجانے میں نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کا بھی ان پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :