کشمیر میں غیرمعیاری مواصلاتی نظام پر اقوام متحدہ کی رپورٹ۔۔۔۔

بدھ 21 اکتوبر 2020

Inam Ul Haq

انعام الحق

اقوام متحدہ نے شہریوں کو انٹرنیٹ تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق قرار دیدیا ہے جیسے تعلیم ،صحت اور امن وامان جیسی سہولیات کو شہریوں کے بنیادی حقوق قرار دیاگیا ہے ایسے ہی انٹرنیٹ تک رسائی کو بھی اقوام متحدہ بنیادی حق قرار دے چکی ہے
اب اسکو بعض مذہبی خلصے سازش قرار دیں گے اور دلیل یہ دیں گے کہ اسکے ذریعہ اقوام متحدہ فحاشی کو عام کرنا چاہتی ہے ارے بندا خدا جیسے دنیا کی کسی بھی سہولت کا ایک یا کہیں منفی پہلو ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ اسکے  مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں آپ کا دماغ انہی منفی پہلوؤں ہی کیطرف کیوں جاتا ہے۔

۔۔۔
انٹرنیٹ اب تعلیم کا ذریعہ بن چکا ہے کرونا کے بعد تو تعلیم کے لئے انٹرنیٹ کی ضروت کو ہرعقل مند نے شدومد سے تسلیم کیا ہے اور پوری دنیا میں مسلمان ممالک سے عموما اور پاکستان سے خصوصا ہزاروں کی تعداد میں قراء کرام اور دیگر کوالیفائیڈ علما دیار کفر میں مسلمان بچوں کو قرآن کی تعلیم اسی انٹرنیٹ کے ذریعہ سے دے رہے ہیں جس سے ان بچوں کی دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری ہورہی ہے وہیں ان آن لائن اساتذہ کی زندگی بھی خوشحال گزررہی ہے ورنہ اس آن لائن قرآن ٹیچنگ کانسپٹ سے پہلے اکثر مدارس کے اسلامی فرعون نما مہتمم جس طور پر مدارس کے بڑے اساتذہ اور قرا کا معاشی استحصال کرتے تھے الامان و الحفیظ میں اسکا عینی شاہد بھی ہوں اور مبتلا بہ بھی رہا ہوں اس موضوع پر کچھ دن بعد سے ایک نئی سیریز شروع کروں گا ۔

(جاری ہے)

۔۔۔اب آتے ہیں اصل موضوع پر۔۔۔
اقوام متحدہ کے ہیومین رائٹس کونسل کے پینتالیسویں (45th)سیشن کے اندر 14ستمبر 2020کو جو رپورٹ جموں وکشمیر میں کشمیرکے باشندوں کے ساتھ انڈیا اور پاکستان کی جانب سے انٹرنیٹ تک رسائی دینے کے حوالہ سے متعلقہ کونسل کے ہائی کمیشنر نے پیش کی وہ انڈیا کے حوالہ سے تو انتہائی خوفناک ہے جس سے انڈیا کا چہرہ پوری دنیا میں ایک حق تلف ریاست کے طور پر مزید آشکار ہوا ہے لیکن افسوس کے ساتھ اس رپورٹ میں پاکستان کے کردار پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے جسمیں دو اہم پوائنٹ آؤٹ کئے گئے ہیں
اس رپورٹ کے وہی دو اہم پوائنٹ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے الفاظ میں ہی ملاحظہ فرمائیں ۔

۔۔۔
On the Pakistan side, people also have limited internet access,creating difficulties in accessing education and other vital services.I  of expression and association.
انگریزی دان اس کو خود سمجھیں میں انگریز النسل تو نہیں لیکن ادھر ادھر کے اجتہاد سے جو میں سمجھا ہوں وہ دو باتیں ہیں
نمبر 1....
 پاکستان کےزیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ تک شہریوں کی رسائی کو اقوام متحدہ نے محدود اور ناکافی قرار دیا ہے جوکہ بالکل درست ہے کشمیر کا ہر شہری اسکا گواہ ہی نہیں اس سے متاثر بھی ہے
نمبر۔

۔۔۔2
اقوام متحدہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی  حق آزادی اظہار رائے سے مطمئن نہیں بلکہ فکر مند ہے اگر میں غلط سمجھا ہوں تو اصلاح فرما دینا غدار کا سرٹیفکیٹ تیار کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بھی انتہائی محتاط الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کا طرز رپورٹنگ ہی ایسا ہے کہ وہ جب مختلف ممالک کے حوالہ سے رپورٹ مرتب کرتی ہے تو انتہائی محتاط سفارتی آداب کے دائرہ میں رہ کر ایک ایک حرف کو اپنے دائرہ کار کے اندر رکھ کر لکھتی ہے
الا یہ کہ اقوام متحدہ کا قلم جب کوئی ظالم ملک چھین کر اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو وہ پھر اپنی مرضی سے لکھتا ہے اور منسوب اقوام متحدہ کی طرف کرکے مہر بھی لگوا دیتا ہے جیسے امریکہ جب مسلمانوں کے خلاف بالخصوص طالبان یا مجاہدین کے خلاف یا اپنے دشمن ممالک کے خلاف اقوام متحدہ کا قلم چھین کر اقوام متحدہ کے کاغذ پر متعصبانہ رپورٹ لکھتا ہے تو ساری حدود کو پھلانگتا ہے پھر وہ دن کو رات اور رات کو دن لکھتا ہے لیکن بہادر امریکہ سے کوئی نہیں پوچھ سکتا سوائے امریکی قوم کے امریکی قوم اپنی حکومت کا زبردست احتساب کرتی ہے اور واقعتا امریکی قوم ایک باشعور قوم ہے کاش امریکی قوم مسلمان ہوتی ۔

۔۔۔
نہ جانے کیوں مسلمان ممالک کو ہی لاشعور قومیں کیوں ملیں شائد ہمارے اجتماعی بداعمالیاں ہیں۔۔۔۔۔خیر بات چل رہی تھی کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کی تو نرم لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ کی سہولت کو محدود قرار دیا اور حق آزادی رائے پر فکرمندی کا اظہار کیا
اور سخت الفاظ میں پاکستان کے دشمن لوگ اس رپورٹ کو اس طرح بھی کوٹ کرسکتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کمیونیکیشن کی غیر معیاری سروس اور آزادی اظہار رائے کی موجود صورتحال کو بنیادی  انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیدیا ہے اگرچہ میں ایسا نہیں کہوں گا۔

۔۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ روز میں نے ایک پریس ریلیز جاری کی جسمیں میں نے کشمیر میں مواصلاتی کمپنیوں سے اصلاح احوال کا مطالبہ کیا اور SCO یعنی سپیشل کمیونیکشن آرگنائزیشن کی ہائی اتھارٹی سے نااہلی پر استعفی کا مطالبہ کیا کشمیر کاپرنٹ میڈیا میری اس خبر کو صفحہ اول میں جگہ دینے کا متمنی تھا لیکن رات ہی رات یار لوگوں نے میری اس پریس ریلیز کو ردی کی ٹوکری میں ڈلوا کر دریائے نیلم برد کروا دیا ایسا کرو گے تو کون آئے گا۔

۔
میں اپنی پریس ریلیز کے بلیک آؤٹ ہونے پر نہ تو پریشان ہوں اور نہ ہی افسردہ ہوں بلکہ میں خوش ہوں کہ میں جہاں ضرب لگانا چاہتا تھا اسمیں بہترین انداز میں کامیاب ہوا ہوں میری وہ پریس ریلیز اعلی حکام کے واٹس ایپ میں گھوم رہی ہے
اس لئے یہ وضاحت بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ میں شورش کاشمیری کا عقیدت مند ہی نہیں ان کے مشن کا علمبردار بھی ہوں لیکن میں پاکستان کو اور پاکستانی اداروں کو اپنا محسن بھی سمجھتا ہوں بقیہ پاکستانی اداروں میں بیٹھے افراد اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو میں ان کو آگاہ کرنے کے بعد ڈھنکے کی چوٹ پر انکے اس  کردار کو قلمی انداز میں چیلنج کروں گا کیونکہ ان چند افراد کیوجہ سے پاکستان کے ریاستی اداروں کے کردار پر انگلی اٹھی ہے میں اپنے اس کردارکو پاکستان کے ریاستی اداروں سے ہمدردی سمجھتا ہوں بقیہ جو بے لگام اعلی افسر میری اس ہمدردانہ کاوش کو سرکشی قرار دینے کی کوشش کررہیں ہیں ان سے گزارش ہے عقل کے ناخن لو اپنے اختیارات اور عقل کا ناجائز استعمال مت کرو آپکی اسی روش نے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس لئے اپنی اداؤں پر غور کرو ہوسکتا ہے غلطی کسی اور میں ہونے کے بجائے آپ میں ہی ہو دوسروں کے اقدامات آپ کو ملک دشمن نظر آتے ہیں ہوسکتا ہے آپکی پالیسیاں ہی ملکی مفادات کا خون کرتی ہوں ۔

۔۔۔۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ پر میں وزیر اعظم پاکستان سمیت ریاستی اداروں کے اعلی حکام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس رپورٹ کو ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں اور پھر ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دیکر ذمہ داروں کا تعین کریں اور انکا قانون کے مطابق مواخذہ کریں میری رائے کے مطابق پہلے نمبر پر SCO کشمیر میں کمیونیکیشن کی غیر معیاری سروس کا ذمہ دار ہے اور دوسرے نمبر پر PTA ہے اور تیسرے نمبر پر مواصلاتی کمپنیاں ہیں
ان تینوں فریقوں کی ہائی اتھارٹی کو اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ آنے کے بعد اخلاقا ازخود اپنی سیٹوں کو استعفی دیکر چھوڑ دینا چاہیے اگر ایسے اخلاقی اقدار انکو نصیب نہیں تو اعلی حکام انکو انکے عہدوں سے برطرف کریں ۔

۔۔۔۔۔
آخر میں PTA اور SCO سے گزارش ہے کہ کشمیر کے دس اضلاع کو مظفرآباد کے ایک آفس سے ڈیل کرنے کی روایت کو اب چھوڑیں اور ضلعی سطح پر کسٹمر کئیر اور آپریشن آفسز کھول کر اہل افراد کو بٹھائیں تو دو ماہ کے اندر تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وطن عزیز کے مفاد میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنے مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی اخلاقی جرات اور ہمت عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :