
مولنا فضل الرحمن کا میڈیا کا سامنا کرنے کا منفرد انداز
جمعرات 17 ستمبر 2020

انعام الحق
اسی چورن کی تلاش میں وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں مچھروں کو برداشت کرتے ہیں گرمی سردی جھیلتے ہیں
مولنا فضل الرحمان کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنکو سیاسی حلقے ہوں یا ریاستی ادارے یا پھر صحافتی حلقے انہیں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ سلیم صافی اور حامد میر جیسے سنیئر ترین جرنلسٹ بار ہا یہ برملا کہتے سنیں گے ہیں کہ مولنا فضل الرحمان سے خبر ملے یانہ ملے سیکھنے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے
اس دور کے سیاسی مقتدا کے لئے میڈیا کا اچھے اور سلجھے ہوئے انداز میں سامنا کرنے کا گر بنیادی کردار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسکو یہ نہیں آتا وہ ملکی سیاست میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکتا عموما سیاسی قائدین کے لئے وہ مرحلہ انتہائی مشکل ہوتا ہے جب وہ میڈیا کو کچھ بھی نہ کہنا چاہتے ہوں اور نوکننٹس پر گزارہ کرنا چاہتے ہوں لیکن میڈیا کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتا ہو تو ایسے وقت میں یا تو سیاسی قائدین کو ناخوشگوار رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا میڈیا کو سخت رویوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جسکا دونوں اپنے اپنے وقت پر حساب چکتا کرتے ہیں مولنا فضل الرحمان نوکمنٹس کا سہارا بہت کم بلکہ شادر نادر ہی لیتے ہیں
مولنا فضل الرحمان کا شمار ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو سیاسی طور پر مشکل ترین اور حساس ترین موضوع پر بھی بڑے فصیحانہ اور بلیغانہ انداز میں سب کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اور پتلی گلی سے نکل بھی جاتے ہیں
بعض حساس ترین موضوعات پر مولنا نمکین جملوں اور مزاہیہ کہاتوں سے اس مسئلہ کی حساسیت کو بھی کم کردیتے ہیں اور اپنا بھرپور موقف بھی دے دیتے ہیں جیسے
2018 کے الیکشن کے نتائج پر مولنا کو ریاستی اداروں سے سخت گلہ تھا جسکو مولنا نے نکے دا ابا کے مشہور لطیفہ سے تعبیر کرکے ایک نیالطیفہ بنا ڈالا جو ہر زبان زدعام رہا
آج اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر بھی مولنا نے ایسا ہی کیا میڈیا کو بھی ہینڈل کرگے اور بتایا بھی کچھ نہیں اسی تجسس پر مولنا خاطر خواہ سیاسی فوائد حاصل کریں گے
لیکن اس موقعہ پر مولنا فضل الرحمان نے حالیہ صحابہ کرام کی گستاخیوں پر ریاستی کردار پر سوال اٹھایا اور انکی خاموشی کو انکے مشکوک کردار کی دلیل قرار دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کسی گستاخانہ عمل کے ردعمل میں اگر کوئی شہری انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اس ردعمل پر تو سخت قانونی ایکشن ہوتا ہے لیکن جس عمل کیوجہ سے ردعمل ہوا اس عمل پر قانون نافذ کرنے ادارے وہ پھرتی نہیں دکھاتے
آج میڈیا نمائندوں نے مولنا سے تین اہم سوالات کئے لیکن مولنا نے تینوں سوالات کے جوابات کو گول کردیاسوال کردیا
پہلا سوال یہ تھا کہ چوہدری برادران سے ماضی قریب میں آزادی مارچ کے بعد ہونے والے شکوے شکایات پر چوہدری صاحب سے کیا بات ہوئی
مولنا نے چوہدری صاحب کی بیماری کیوجہ سے اس طرح کے سیاسی ایشوز پر بات نہ کرنے کا گول مول جواب دیا
دوسرا سوال یہ تھا کہ اپوزیشن کو اختیار کرنے کے لئے وہ ٹھوس پالیسی کیا ہے جو آپ کو قابل قبول ہو
مولنا نے اسکا یہ جواب دیا کہ انتظار کریں اے پی سی ہونے دیں وہ پالیسی میں اے پی سی میں بتاؤں گا
تیسرا سوال یہ تھا کہ حالیہ موٹروے پر ایک خاتون سے زیادتی ہونے کے دلخراش واقعہ کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق 93فیصد لوگ ایسے واقعات پر سرعام پھانسی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ سرعام پھانسی پر قانون سازی کے حوالہ سے کیا کہیں گے
مولنا نے کہا کہ حکومت ایگزیکٹو پاور سے سرعام پھانسی دے سکتی ہے نواز شریف دور میں دی بھی گئی ہے حکومت ایسا کرے یہ کہہ کرمولنا نے جان چھڑا دی اور سرعام پھانسی کے لئے کسی قانون سازی کی حمایت کی حامی نہیں بھری کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ہوائی تخت مغربی ہواؤں پر پرواز کرتا ہے اور مغرب سرعام پھانسی کے حق میں نہیں تو مولنا اپنی سیاسی زندگی کو اقتدار سے مزید دور کرنے کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتے اس لئے ریاستی ایگزیکٹو پاور کی بتی کے پیچھے لگا کر صحافتی نمائندہ کو خاموش کردیا
مولنا جب صحافیوں کے سوالات کا مزید جواب نہ دینا چاہیں تو بڑے خوبصورت انداز میں سوال وجواب کے سیشن کو لپیٹ لیتے ہیں ایسا ہی مولنا نے چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر کیا کہ صحافی نے پوچھا کے پی ٹی آئی پولیس ریفارمز کی دعوی دار تھی حالانکہ پنجاب میں بیڈ گورننس کی حد کر ہوگئی کہ پولیس کا ماتحت افسر افسران بالا کا حکم نہیں مانتا اشارہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے قضیہ کیطرف تھا تو مولنا نے پنجابی لہجے میں کہا پی ٹی آئی ریفارمز کو رہنے دے بس بندہ دے پتر بن جاؤ
یہ جملہ گلابی پنجابی میں ایسے دلچسپ انداز میں کہا کہ صحافی قہقہے مارنے میں مصروف ہوگے اور انکو اپنے سوال ہی بھول گے مولنا یہ گے اور وہ گے
بہرحال مولنا میڈیا کو ڈیل کرنے کا بھرپور فن جانتے ہیں جسمیں کوئی دورائے نہیں ہیں اللہ تعالی مولنا کے اس فن کو دین اسلام کی اشاعت کے لئے قبول کرے اور اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
انعام الحق کے کالمز
-
امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر اور لبوں کی مسکان
منگل 15 فروری 2022
-
سیاسی اور عسکری سرد اور گرم جنگ
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
کشمیر میں غیرمعیاری مواصلاتی نظام پر اقوام متحدہ کی رپورٹ۔۔۔۔
بدھ 21 اکتوبر 2020
-
بیروزگاری مہتمموں کے دروازوں پر دستک دینے لگی
بدھ 7 اکتوبر 2020
-
میں نے کشمیر کو اپنوں کے ہاتھوں بھی اجڑتے دیکھا
اتوار 27 ستمبر 2020
-
سیاسی ومذہبی قیادت ٹیوٹر۔۔ قبلہ و کعبہ باجوہ سلامت
جمعرات 24 ستمبر 2020
-
اوقاف کنٹرول پالیسی اور محکمہ اوقاف اسلام آباد کے زمینی حقائق
پیر 21 ستمبر 2020
-
مولنا فضل الرحمن کا میڈیا کا سامنا کرنے کا منفرد انداز
جمعرات 17 ستمبر 2020
انعام الحق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.