سیاحوں کی مشکلات اور حکومتی اقدامات

جمعرات 15 جولائی 2021

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

مکرمی!دنیا کا سب سے بلند پولو گراؤنڈ شیندور،دوسری بڑی بلند ترین چوٹی کے ٹو،چھٹی بڑی چوٹی ننگا پربت،راکا پوشی،بیافو و ہسپر گلیشئیرز،کئی برفیلے فلک بوس دل نشین پہاڑی سلسلے،التت و بلتت قلعے،عطا آباد جھیل،استور راما،نلتر،گپہ اور دیئنتر جیسے وسیع و عریض زرخیز میدان،لہلہاتے کھیت،خوش ذائقہ پھلوں کے باغات،گھنے جنگلات،صاف چشمے،بہتی ندیاں،پہاڑوں سے گرتے گیت گاتے جھرنے،یخ بستہ ہواؤں کا راج،گہری جھیلیں جن میں اودے امبر کا دلکش عکس،سبزہ زار وادیاں،حسین ریگزار،خوشبو بکھیرتی دیوسائی کا پھولوں بھرا میدان،معتدل آب و ہوا،روح کو تازگی بخشنے والی ان گنت قدرتی مناظر،گویا جنت کا نظارہ پیش کرنے والی گلگت بلتستان کو انہی خصلتوں کی بناء پر سیاحوں کی جنت اور پریوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


ان ایام میں گلگت بلتستان کا موسم اپنے جوبن پر ہے۔گرمی اور حبس کے ستائے،قدرتی رعنائیوں کے متلاشی کوہ پیماؤں اور سیاحوں کی ٹولیوں کا شمالی علاقہ جات کی سحر انگیز،دلفریب اور مبہوت کرنے والی مقامات پر تانتا بندھا دکھائی دیتا ہے۔پریوں جیسی صفات رکھنے والے گلگت بلتستان کے عوام آنے والے سیاحوں کا خوش دلی سے استقبال کرتے ہیں۔شہروں کا شور شرابا،فضائی آلودگی،گہما گہمی،ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کے شکار افراد قلبی و ذہنی سکون کے لئے اپنے قیمتی لمحات سیر و تفریح کے ذریعے گزارنا چاہتے ہیں۔

جس کے لئے طویل اور کٹھن مسافت طے کر کے ہر سال بیس لاکھ سے زائد آنے والے سیاحوں کو کئی سفری صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سیاحوں کی سفری مشکلات کو کم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی معقول اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔حکومت گلگت بلتستان کو سوئٹزر لینڈ بنانے کی بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہے'مگر یہ وعدے بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔
محکمہ سیاحت کی جانب سے سیاحوں کو ناکافی سہولیات اور ہوٹلوں کی عدم تعمیر کے باعث سیاح مشکلات سے دو چار ہیں۔

سیاح اپنی مدد آپ اور گلگت بلتستان کے عوام کی تعاون کے تحت دلکش و دلربا نظاروں سے اپنے دلوں کو لبھانے اور پُرلطف بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے پر سفر کرنے والے اکثر سیاح ٹریفک قوانین سے آگاہ نہیں ہوتے،جس کے باعث کے کے ایچ پر اکثر حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں۔حادثات کو کم کرنے کے لئے سیاحوں کو ٹریفک قوانین کی تربیت ناگزیر ہے۔

مین کے کے ایچ سے ملحقہ سیاحتی مقامات تک کچی سڑکوں کے باعث سیاح اپنی ذاتی گاڑیوں کا استعمال نہیں کر سکتے اور مخصوص مقامی گاڑیوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔حکومت ان کچی اور خستہ حال سڑکوں کی مرمت کرے تاکہ سیاحوں کی آمدورفت میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔
سیاحوں کی تحفظ اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے سیاحتی مقامات پر فرسٹ ایڈ ڈسپنسریوں کے ساتھ ساتھ ایمبولینس اور ریسکیو کے عملے کا ہمہ وقت تیار رہنا ضروری ہے،تاکہ گلگت بلتستان کے سحر انگیز وادیوں میں گم شہر سے دور ان علاقوں میں مقیم سیاحوں کو کسی بھی ممکنہ بیماری اور حادثے کی صورت میں بروقت طبی امداد پہنچائی جاسکے۔

ساتھ ہی سیاحوں کی مثبت رہنمائی کے لئے گائیڈز کا ہونا لازم ہے تاکہ ان کی صحیح رہنمائی کی جا سکے۔
سیاحت کے شعبے کو دنیا بھر میں ایک صنعت کی حیثیت حاصل ہے۔ورلڈ ٹور آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباً 34 ممالک کا بنیادی ذریعہ آمدن سیاحت ہے۔پاکستان کی طرف سیاحوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔دنیا بھر میں سیاحت کے حوالے سے مشہور برطانوی بیک پیکر سوسائٹی نے 20 ممالک میں سے سیاحت کے لئے پاکستان کو نمبر ون قرار دیا ہے جبکہ دنیا کے101 ممالک کا دورہ کرنے والی ٹیم نے سیاحوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کا سفر ضرور کریں۔

صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے دورۂ گلگت بلتستان کے موقعے پر کہا تھا کہ ”جس نے گلگت بلتستان نہیں دیکھا‘ اس نے کچھ نہیں دیکھا“۔
سیاحت کے شعبے کی ترقی کے لئے حکومتی سطح پر مثبت اقدامات کئے جائیں اور امن و امان کی فضا کو مزید بہتر بنایا جائے۔تاکہ سیاحت کے ذریعے عالمی ممالک کو گلگت بلتستان بالخصوص پاکستان کا مثبت امیج دکھایا جا سکے۔

اگر حکومتِ گلگت بلتستان ان قدرتی مقامات کو بین الاقوامی معیار کی سہولیات دے کر اور سیاحوں کی آرام و سکون کا مناسب بندوبست کرے،تو یہ خطہ پورے ملک کو سالانہ اربوں ڈالر کی خطیر رقم دے سکتا ہے اور ملکی معیشت کو تقویت دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔جس کے سبب مملکتِ خدادادِ پاکستان کو کبھی بھی بیرونی امداد کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :