شہہ رگ کٹ رہی تو جسم کیسے سلامت رہے گا

منگل 31 مارچ 2020

Israr Ul Haq Mashwani

اسرار الحق مشوانی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کی جانب اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کی توجہ دلائی ہے اور واضح کیا ہے کہ جنوبی ایشیا اور پورے خطے کے پائیدار امن سے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا حل جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام اپنے خط میں کہا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی جا رہی ہے جبکہ بھارتی حکومت نے جو دعویٰ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول کے مطابق ہے یہ بالکل غلط ہے۔

وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی توجہ بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں پر بھی مبذول کرائی ہے۔ یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ اور مغرب نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی حکومت نے بھی نہایت بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور کشمیر میں بھارت کے کسی اقدام پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا وبا کا بھی مودی سرکاری پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور وہاں بھارتی مظالم جاری ہیں۔

(جاری ہے)

کورونا کی وبا کے سبب دنیا کی ساری توجہ بھی دوسری طرف چلی گئی ہے حالانکہ جب کورونا نہیں تھا اس وقت بھی کشمیر کے حوالے سے منافقانہ رویہ ہی تھا۔ وزیر خارجہ کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو توجہ دلانی چاہیے تھی کہ کشمیر میں مظلوموں کا چھ ماہ کا لاک ڈاؤن کسی کو نظر نہیں آیا اور سب نے آنکھیں بند کرلی تھیں اب ان تمام ممالک کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔

اگرچہ ان سب ممالک میں بشمول پاکستان، عوام کو اشیائے خورونوش، انٹرنیٹ، موبائل، بجلی وغیرہ کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔ ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی اجازت بھی ہے اور دیگر سہولتیں حاصل ہیں لیکن لوگ اس وی آئی پی لاک ڈاؤن سے بری طرح نالاں ہیں۔ انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کا کیا حال ہوگا جو ہر قسم کے حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ سے تو پہلے ہی محروم کیا جا چکا تھا۔

اب وہاں کٹھ پتلی سیاستدانوں کی رہائی کا ڈراما کیا جا رہا ہے۔ اسے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں بہتری قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے اب چونکہ خط لکھ دیا ہے تو اپنا یہ کام مزید آگے بڑھائیں، اس سلسلے کو دراز کریں، عالمی رہنماؤں کو بھی خطوط لکھیں۔ آج کل وفود بھیجنا ممکن نہیں ہے تو خطوط اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے انہیں کشمیر کے حوالے سے متوجہ کیا جائے۔

کشمیر کو بھلانے کی کوشش تو قدرت نے ناکام بنا دی، جہاں جہاں لاک ڈاؤن ہے وہاں لوگ خود ہی کشمیریوں اور غزہ کے باشندوں کو یاد کرنے لگے ہیں۔ وزیر خارجہ سرحدی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ اصل بات کی طرف بھی توجہ دلائیں۔ کشمیر کا مسئلہ لاک ڈاؤن، کرفیو، انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا سرحدی خلاف ورزی نہیں بلکہ ایک کروڑ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ہے۔

ساری خرابیاں حق خودارادیت سے محروم کرنے کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں کہتے ہیں کہ آفات اور مصائب کسی کی تسلیم ورضا کے محتاج ہوتے ہیں نہ اس کا انتظار کرتے وہ خاموشی سے شکار کی دہلیز پار کرتی ہیں۔ یہاں تو آفت ہماری سرحدوں کے اند ر داخل ہو چکی ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے پنجے سوسائٹی میں گاڑ رہی ہے اس کا ثبوت کورونا کے مریضوں کی تعداد میں ہر روز ہونے والا اضافہ ہے۔

ابھی تو یہ تعداد کنٹرولڈ انداز سے بڑھ رہی ہے خدانخواستہ اگر یہ لہر کی شکل اختیار کر گیا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ وناصر ہے۔ چین سے اٹلی تک کورونا کی تباہ کاریاں دور کی بات نہیں لمحہ موجود کا قصہ ہے۔ ابھی بھی کورونا کی ڈائن بال کھولے نگر نگر گھوم رہی ہے۔ ایسے میں کوئی ملک ومعاشرہ اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اگر ہمارے رویے یہی رہے اور ہم نے قومی طور پر ذمے دارانہ رویہ اپنا کر بازاروں اور گلیوں کی بھیڑ کم کرکے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں تو پھر حکومت کے پاس کچھ مدت کے لیے لاک ڈاؤن اور کرفیو کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اس کا نقصان پھر کم وزیادہ سہی مگر ہر شخص کو ہوگا۔ غریب اور دہاڑی دار مزدور شاید اس سے زیادہ متاثر ہوں مگر امیر اور صاحب ثروت بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے والے حقیقت میں حکومت کے اعصاب اور صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومت اگر سخت اقدامات نہ اُٹھانے کے حوالے سے تنقید کی زد میں آئے گی تو اسے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ عوام شعور اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں میں رہ کر حکومت کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کریں گے تو حکومت کو بھی لاک ڈاؤن اور کرفیو جیسے فیصلوں سے دور رہنا پڑے گا مگر عوام نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو حکومت پھر طاقت سے اپنے فیصلے منوائے گی اور اس زورا زوری میں غریب طبقات کا نقصان ہوگا۔

حکومت کی حکمت کو کمزوری سمجھنا خود فریبی ہے۔ حکومت جب اپنا ذہن بنالیتی ہے تو وہ اپنے فیصلے منوا کر دم لیتی ہے۔ عوام کو بہرطور لاک ڈاؤن کے لیے بھی ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ یہ معاملہ اب اس بات پر منحصر ہے کہ کورونا کی وباء حکومت کے قابو میں رہتی ہے یا بے قابو ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں عوام کی جان بچانے کے لیے کوئی بھی تلخ فیصلہ کیا جاسکتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :