آباد نہیں‘ شاد باد کی ضرورت ہے

منگل 10 نومبر 2020

Israr Ul Haq Mashwani

اسرار الحق مشوانی

 امریکی صدر کا انتخاب ہوچکا‘ نئی انتظامیہ اوول آفس سنبھالے گی‘ کہا جارہا ہے کہ وہ ماضی بھول کر آگے بڑھے گی‘ مگر حال اور مستقبل یاد رکھے گی‘ پوری دنیا اس وقت سومسی تبدیلیوں‘ فضائی آلودگی اور کرونا جیسی وباء کا شکار ہے‘ کہا جارہا ہے کہ امریکی نئی انتظامیہ اسی شعبے میں کام کرنا چاہتی ہے‘ پاکستان بھی عالمی دنیا سے الگ تھلگ ملک نہیں ہے ہم بھی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں‘ پاکستان اپنے جغرافیائی مقام کے باعث دنیا کا اہم ترین ملک ہے‘ اور ہمیں اپنے اس مقام کو پہچاننا چاہیے‘ اور بحثیت قوم ایک ایسی حکمت عملی‘ تیاری اور ٹھوس منصوبہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے جس سے ہم دنیا میں امامت کر سکیں
 اقبال نے یہی تو کہا تھا کہ سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا‘ کہ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘ پاکستان کے عوام اور حکمران اگر ایک پیگ پر آجائیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہر شعبہ زندگی میں ترقی سے نہیں روک سکتی‘ ہمیں اس وقت تعلیم‘ صحت‘ سماجی انصاف اور ہر شخص کے لیے اس کی صلاحیت کے مطابق اسے جائز روزگار کے موقع میسر آنا چاہیے‘ تحریک انصاف نے یہی نعرہ دیا تھا‘ نہ جانے کیوں وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ملک میں مافیا بہت طاقت ور ہے‘
 جناب محترم
 مافیا طاقت ور اس لیے ہے کہ ہم نے اسے طاقت ور تسلیم کرلیا ہے ورنہ کسی مافیا کے پاؤں نہیں ہوتے‘ آئین پاکستان ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ انجمن سازی کرسکتا ہے‘ آئین کے آرٹیکل۱۷ میں سب کچھ اس بارے میں مکمل وضاحت کے ساتھ موجود ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ انجمن سازی کے حق کو چند افراد مافیا کے طور پر چلاتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں‘ ہم جمہوریت کے نام پر چند افراد کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ”پاؤں ننگے بے نظیروں کے‘ دن پھرتے ہیں محض وزیروں کے“ والی صورت حال ہے‘ نعرہ دیا جاتا ہے ترقی کا‘ کام کیا جاتا ہے ذاتی مفاد کے لیے‘ نعرہ دیا جاتا ہے آباد کا‘ کام وہ کیا جاتا ہے جس سے سارا ماحول ہی غیر آباد ہوجائے‘ ہمیں ایسا آباد نہیں چاہیے ہمیں تو ایسا ماحول چاہیے کہ جس سے ہر کوئی شاد باد ہو‘ ملک معیشت اس وقت ایک چیلنج مانگ رہی ہے وہ چیلنج یہ ہے کہ صرف ملک کے لیے سوچا جائے‘ اور ہر شعبے میں سماجی انصاف مہیا کیا جائے‘ تاکہ ہر انسان اپنی صلاحیت کے مطابق ملک کی ترقی میں حصہ ڈالے‘ اس وقت ہماری معیشت کی مثال ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو بیچ سمندر میں پھنسی ہوئی ہے‘ طوفانی ہوائیں اسے ساحل پر آنے نہیں دے رہیں حکومتی کوششوں اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث صنعتی اور تعمیراتی سیکٹر میں بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ تعمیراتی انڈسٹری روزگار فراہم کرسکتی ہے‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے‘ مگر یہ بات قبول نہیں ہے کہ تعمیراتی انڈسٹری میں صرف ایک گروہ ہی‘ محض اپنے پیسے کی بنیاد پر‘ اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر‘ ساری ملائی کھا جائے‘ یہ ملک صنعت کی طرح زراعت پر اور دیگر صنعتوں پر مساوی توجہ مانگ رہ رہا ہے‘ ہر شخص حکومت کی نظر میں ہونا چاہیے‘ ہمیں علم ہے کہ ایک مافیا ہے جو اس وقت سرگرم ہے‘صورت حال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معیشت مسلسل چھ ماہ سست روی کا شکار رہی اس سے ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، ساتھ ہی ساتھ مہنگائی کی شرح 8 اور 9 فی صد کے درمیان ہے۔

(جاری ہے)

چناں چہ لوگوں کی قوت خرید میں شدید کمی واقع ہوئی ہے روزگار فراہم کرنے کے لیے معاشی نمو کی شرح کم از کم 5 فی صد ہونی چاہیے پاکستان کے پالیسی ساز زراعت، صنعت اور سروسز سیکٹر کے لیے الگ الگ طویل مدتی اصلاحاتی پالیسیاں بنائیں اور معیشت کو آباد کرنے کے لیے چند افراد نہیں بلکہ اسے عام آدمی تک پہنچائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :