کاروبار چلنا چاہیے

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Israr Ul Haq Mashwani

اسرار الحق مشوانی

 سچ بولیں تو آگ لگتی ہے، تلخ سچ بولیں تو جان جاتی ہے، ہم سچ بھی بولیں گے اور آگ بھی نہیں لگے گی اور جان بھی بچ جائے گی، ہمارے سچ میں تنقید نہیں تجویز ہوگی، گزارش ہوگی اور تمنا یہی ہے کہ دل میں بات اتر جائے، وزیر اعظم نے کہا کہ کرونا ہے اور احتیاط لازم ہے، مگر کاروبار بند نہیں کریں گے، احیتاط کا عالم یہ ہے کہ ریسٹوران کھلے ہیں اور کسٹمرز کو فٹ پاتھوں اور پلازوں کے برآمدوں میں کھانا پیش کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پیدل چلنے والوں کے لیے پہلے سے ذیادہ مشکل بن گئی ہے،ان کے لیے تجاوزات نے بھی مشکل بنا رکھی ہے، پوری دنیا میں ایک حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ کھلا رکھا جائے گا، فٹ پاتھ بنائے ہی اس لیے لیے جاتے ہیں، پلازوں کے برآمدے بھی اسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں کہ کسٹمرز کے لیے آسانی ہو، لیکن کیا کریں؟ ایسا ہے نہیں، اسلام آباد جیسا شہر، جہاں ملک کی تعلیم یافتہ آبادی ہو، وہاں فٹ پاتھوں پر موٹر سائکل چلائے جائیں، اس بارے میں ہم کسے الزام دیں، حل یہی ہے کہ لوگ خود سمجھیں ورنہ ٹریفک پولیس آنکھیں کھولے اور ایسے لوگوں کا چلان کرے، کرونا کے باعث گزشتہ مارچ سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑی ہوئی ہیں، چہار سومندی کارحجان ہے، حالیہ دوسری لہر پہلی لہڑ سے ذیادہ خطر ناک بتائی جاتی ہے، اگر یہی سچ ہے تو پھر برآمدوں اور فٹ پاتھوں پر رسٹوران میں کھانا پیش کرنے کا معاملہ کیاہے؟ برآمدوں اور فٹ پاتھوں پر ہی میز ساتھ ساتھ جوڑ کر کھانا پیش کرنا ہے کہ تو پھر یہی کام ریسٹوران کے ہال میں ہی کیوں نہیں کرلیا جاتا؟ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے یہی لاجک ہو کہ کاروبار چلنا چاہیے، ایک سازشی تھیوری ہے کہ کرونا ایک نئی طاقت کو لانے کے لئے جرااثیم پھیلانے کھیل ہے، یہ بات امریکی انتخابات کے تناظر میں کہی جاتی تھی، شاید اسی لیے ٹرمپ نے چین کو اس کا مؤجب قرار دیا، یہ بھی سچ ہے کہ اس جراثیم کو پھیلانے کے لئے میڈیا استعمال ہوا کہ جھوٹی بات بھی سچ نظر آنے لگی، منصوبے کے تحت ترقی یافتہ ممالک میں پھیلایا گیا تاکہ بات سچ ثابت کی جا سکے اور ترقی پذیر ممالک کو یہ یقین ہو جائے کہ کرونا ایک حقیقت ہے، اس کے بعد کیا ہوا؟ لاک ڈان کا سلسلہ چل پڑا شہر لاک ڈان، ملک لاک ڈان اور اس کے بعد مکمل لاک ڈاؤن، لوگ تنگ پڑے تو پھر نیا نام دیاگیا کہ سمارٹ لاک ڈان، پہلے مرحلے میں یہ ہوا کہ ہر قسم کا کاروبار بند، اب چونکہ سمارٹ لاک ڈاؤن ہے لہذا لہذامعشیت کی کھڑکی کھلی رکھی گئی ہے مگر فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لیے لاک ڈاؤن ہے کہ وہ اب یہاں پیدل چلنے کا حق کھو چکے ہیں…………… بلیو ایریا سے لے کر شہر کی ہر ایک مارکیٹ میں سارے فٹ پاتھ کہیں کھو چکے ہیں، ان کا نام و نشان نہیں مل رہا، کوئی ہے جو شہر کے فٹ پاتھ واگزار کرائے؟ کوئی ہے جو کسٹمرز کو شہر کی ہر مارکیٹ سمیت بلیو ایریا کے پلازوں کے برآمدے اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ واپس دلائے، یا اس کام کے لیے کسی محمد بن قاسم کا انتظار کیا جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :