شجر کہانی

پیر 14 دسمبر 2020

Javed Ali

جاوید علی

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بہت سے راز چھپا رکھے ہیں انسان جب اس میں دل کی آنکھیں کھول کر ان رازوں کو پانے کی تلاش میں نکلتا ہے تو یہ راز اس کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ پہاڑوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ جوڑتے ہیں تو پہاڑ اپنی زبان میں ان سے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ جو ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں عام آدمی انہیں سمجھنے سے ناواقف ہے۔

آپ نے صوفیاء کرام کے بارے پڑھ رکھا ہوگا کہ وہ اللہ سے لو لگانے کے لیے جنگل کو اپنا مسکن بناتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا سے الگ کر کے اپنے من کی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں۔آپ اپنی زندگی میں چند ایک لوگ ضرور ملیں گے جو آپ کو عجیب و غریب داستانیں سنائیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ اس وقت ان پر ہنسیں لیکن جب اس پر غور کریں تو آپ یقیناً روئیں گے کہ کتنی منطق کی بات وہ کر گئے۔

(جاری ہے)

پھر آپ انہیں تلاش کریں گے لیکن ان کا ملنا مشکل ہو گا جس طرح انہیں پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے کی بات ہے جب میری اسی طرح کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں کوئی رکشہ ڈرائیور تھا تو کوئی ٹرک ڈرائیور، کوئی بوڑھا تھا تو کوئی بچہ۔ پھر میں آہستہ آہستہ ان لوگوں سے دور ہوتا گیا بلخصوص جب میں تعلیم کے لئے سرگودھا چلا گیا۔
اس دوران جون جولائی کے دنوں نہر کے کنارے میری ایک ایسے درخت سے ملاقات ہوئی جو تقریباً سو سے ڈیڑھ سو سال کا تھا۔

بارہ بج چکے تھے گرمی سے چہرہ جھلس رہا تھا اور پیاس بجھانے اور گرمی سے بچنے کے لیے پانی اور ٹھنڈی چھاؤں کی طلب تھی۔ اتفاق سے اسی درخت کے ساتھ ایک نلکا بھی تھا۔ میں نے پیاس بجھائی اور آرام کے لئے درخت کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھ سے سرگوشی میں باتیں کر رہا ہے۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ میرا دوسرا ساتھی (پیڑ) مجھ سے مخاطب ہے۔

جب ہمارے درمیان بات شروع ہوئی اس نے اپنے بارے بتانا شروع کیا کہ میرا بیج یہاں آندھی کے ساتھ اڑ کر آیا۔ میں یہاں کئی مہینے پڑا رہا راہگیروں کے پاؤں کے نیچے کئ بار آیا اور اسی طرح مجھ پر کچھ گرد (مٹی) چڑھ گئی پھر بارشیں ہونا شروع ہو گئیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد میں گودے سے باہر نکل آیا اور بڑھتا گیا۔ جس سال بارشیں زیادہ ہوتیں میں خوب نشوونما پاتا، پھلتا پھولتا اور جس سال بارشیں کم ہوتیں تو میری ہریالی ختم ہونا شروع ہو جاتی۔

اس دوران میں کئی بار بھیڑوں اور بکریوں کی خوراک بنا جب بارشیں ہوتیں پھر سےمیں جی اٹھتا۔ جب میں کچھ بڑا ہوا تو دیکھا اک گڈریا کلہاڑی اٹھاۓ میری طرف آ رہا ہے اور اس نےآتے ہی میری شاخیں کاٹ اپنی بھیڑوں اور بکریوں کو ڈالنے لگا۔ میرا درد سے برا حال ہو رہا تھا میں چیختا چلاتا رہا لیکن اس نے میری ایک نہ سنی پھر میں نے سوچا اگر وہ روپوں کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کر سکتا ہے تو اسے میری کیا پرواہ۔

یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ میری نشوونما کے لیے ضروری تھا۔ پھر اک دن یہاں سے گزر ہوا تو وہ آرام کے لئے میرے یہاں رکھا تو اس نے یہاں سے صفائی کردی اور اس کے بعد میرے یہاں لوگوں کا آنا جانا لگ گیا اور اس طرح لوگوں کی باتیں سن کر تنہائی سے اپنے آپ کو دور محسوس کرتا۔
پھر اک دن یہاں سے اک بابوجی کا گزر ہوا وہ کچھ دیر یہاں ٹھہرا اور چلا گیا۔

چند دن ہی گزرے تھے کہ بابوجی دو اور آدمیوں کے ساتھ چند ایک ہتھیار اٹھائے آ گیا اور یہ نلکا لگا کر چلے گئے۔ اس کے بعد میری تنہائیاں اک دم ہی خوشی، رونق اور میلہ میں بدل گئی۔ گرمیاں ہوتی تو لوگ گرمی سے بچنے اور اپنی پیاس بجھانے یہاں آ جاتے ہیں اور کچھ دیر آرام کر کے چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں بھی میں ہی اللہ کے فضل و کرم سے لوگوں کا سہارا بنتا ہوں اور روہگیر سردی سے بچنے کے لیے رات میرے یہاں ہی رکتے ہیں کیونکہ میرے پتے بہت سگنے ہیں۔

میں نے پوچھا تیرے یہاں کس طرح کے لوگ آتے ہیں؟ کہا میرے یہاں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں دنیا کے اچھے سے اچھے اور برںے سے برے، غریب سے امیر اور بادشاہ سے فقیر سبھی تشریف لاتے ہیں اور مجھے سب بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرے یہاں تین قسم کے لوگ آتے ہیں پہلے وہ جو ترک دنیا کر کے اپنے رب کی راہ نکل پڑتے ہیں ان لوگوں نے کبھی بھی مجھے دکھ یا تکلیف نہیں دی۔

انہوں نے یہاں بیٹھے ہوئے مجھے آرام و سکون اور جاتے ہوئے میرا اور اپنے خالق کا ہمیشہ شکریہ ادا کیا۔ میں انہی لوگوں کا منتظر رہتا ہوں اور ان کی راہ تکتا رہتا ہوں۔ میں نے ان کی زبان سے کبھی گلہ و شکوہ نہیں سنا جو ہے اسی پر خوش رہتے ہیں۔ ان کا کسی فرقہ،مذہب،گروہ یا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ انہوں نے اپنا تعلق اپنے رب سے جوڑا ہوا ہے اور اپنے آپ کو دکھی انسانیت کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔

بعد اوقات یہ لوگ یہاں نماز پڑھنے کے لئے مصالحہ بچھا کر کانوں تک ہاتھ لے ہی جاتے ہیں اور کسی کی مدد کے لیے پکار آتی ہے نماز چھوڑ کر دادرسی کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ کبھی کبھار لوگ ان سے بدتمیزی بھی کرتے ہیں اور انہیں یہاں سے اٹھا دیتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر کوئی غصہ کا اثرات نہیں ہوتے بلکہ دعا دیتے چلے جاتے ہیں۔ جب تک یہ یہاں بیٹھے رہتے ہیں مجھ ناچیز پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی رہتی ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیادار آتے ہیں جو چور، ڈاکو، افسر اور کاروباری حضرات ہیں جن کا مشن پیسہ کمانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کی دن بدن اضافی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دوسری کو نیچا دکھانے میں لگے رہتے ہیں اس طرح سکون کی نیندیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ ہمیشہ تدبیر کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو کس طرح اپنے رستہ سے ہٹاؤں تاکہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو یہ دنیا کے سب سے بڑے دکھی اورحوس کے پجاری ہیں مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے کہ کاش یہ لوگ زندگی کا مقصد سمجھ جائیں۔

ان لوگوں کے مسائل جسمانی ہوتے ہیں اور تعویذ گنڈوں والوں پاس پہنچے ہوتے ہیں جو ان کی کھال ادھیڑ لیتے ہیں جن کی آنکھیں ان کی جیبوں پر ہوتی ہیں اور جب روحانی بیماریوں کی بات آتی ہے تو یہ سائنس سے اس کا حل تلاش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں وہ سکون نہیں ملتا جسے وہ پانے کی تلاش مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے علاج کےلئے برگزیدہ بندوں کے پاس جانے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے آس پاس ہی ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں کچھ نہیں جانتے۔

ان کو صرف رستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہیں روحانی بیماری کے علاج کے لیے صوفی یا کسی بابے کے پاس جانا ہوتا ہے اور جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے میڈیکل ڈاکٹروں کے پاس جانا چاہیے۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو محنت مزدوری کرنے کے بعد یہاں سے گزرتے ہیں جو اللہ کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق اپنا رزق کما رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے ی بھی دنیا داری کی طرف جا رہے ہیں۔


میں نے پوچھا یہ صوفیاء یا بابے لوگ کون اور کس طرح کے ہوتے ہیں؟ہنسا اور کہنے لگا افسوس تجھے یہ بھی پتا نہیں باقی سب  چیزوں کو جاننے کےلئے یا اصلی یا نقلی کی پہچان کے لیے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ ضروری نہیں کہ یہ امیر ہوں یا غریب، بادشاہ ہوں یا فقیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بابا وہ ہے جو ہمہ وقت بغیر کسی معاوضہ کےدوسروں کے کام آئیں ان کا مشن دکھی انسانیت کی خدمت اور عشق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوتا ہے۔

دنیا کے دکھوں کی ان سے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ لوگ ہر جگہ موجود ہیں جن کو ان کی جستجو ہوتی ہے انہیں اپنے آس پاس ہی مل جاتے ہیں اور جنہوں نے صرف تیری طرح راستہ پوچھنا ہوتا ہے انہیں زندگی بھر نہیں ملتے۔
تم لوگ بہت ظالم ہو اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود جانوروں سے بدتر ہوتے جارہے ہو۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :