بول کہ تھوڑا سچ بھی بہت ہے

جمعرات 18 مارچ 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے دیس کے دکھ میرے پرکھوں کے ہم عمر ہیں کہ جب سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اتنا سرگرم نہیں تھا اور ایک آدھ اخبار اور ریڈیو پاکستان پر بیٹھے لوگ لکھےلکھاۓ سکرپٹ سے ایک انچ بھی آگے پیچھے ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا اور اگر کوئی صحافی اپنی تحریر میں اختلاف کی جرات کر بیٹھتا تو اس کی چمڑی سے اس اختلاف کو یوں نکالا جاتا جیسے کسی کا دانت بغیر اس کی مرضی اور انستھیزیا کے نکلا لیا جائے -
ویسے تو ہمارا میڈیا ہمارے ملک ہی کی طرح ہمیشہ تاریخ کے نازک دور ہی میں قیام پزیر رہا مگر آجکل تو صورتحال بہت ہی تشویش ناک ہے_ لوگوں نے راے قائم کر لی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا کنٹرولڈ خبر ہی آے گی- اسلیے انہوں نے پہلے PTV اور اب باقی چینلز کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے-  YOUTUBE چینل پر اپنے پسندیدہ یا معتمد اینکرز کو سننے کا رحجان بڑھ رہا ہے- سوشل میڈیا اب سماجی رابطوں سے زیادہ سیاسی رابطوں کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے- سیاسی راہنماؤں کو عوام سے براہ راست بات کیلئے اب قومی چینل کی کمی بھی اس نے پوری کر دی ہے- سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی کو بھی اپنی بات کہنے اور دوسروں تک پہنچانے کا مکمل موقع ملا ہے- جسے روایتی میڈیا نظر انداز کر دیا کرتا تھا_ اب سیاسی جلسے، انتخابی کیمپینز، دھرنے کے شیڈول، کشمیر کاز، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک، مقامی مسائل، دیرینہ عدالتی کاروائی میں ہونے والی زیادتیاں، معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں کا ذکر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہونے لگا ہے۔

(جاری ہے)


بدقسمتی سے ایک ایک کر کے سبھی شعبے تشویش ناک انجام کو پہنچاے گئے ہیں- پی آی اے وہ ادارہ تھا جس نے سعودی ایرلائن اور قطر ایر لاین کے آعاز پر ٹیکنیکل سپورٹ مہیا کی تھی اور آج ساری دنیا میں پاکستان کا نام رسوا کر رہا ہے-  دنیا بھر میں آج بھی موبائل فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور سوشل میڈیا کے آ جانے کے باوجود اخبار بینی اور مطالعہ مقبول ترین مشغلہ ہے مگر پاکستان میں بدقسمتی سے ایک سازش کے تحت نوجوان نسل کو مطالعہ سے دور کر دیا گیا-  تعلیمی اداروں اور مختلف شہروں سے لائبریریوں کا خاتمہ نئی نسل میں  کتاب بینی کے رحجان کے خاتمے کے بہت سارے اسباب میں سے ایک تھا ، دوسرے مرحلے میں میڈیا مالکان کے لئے اخبارات کےکاغذ، چھپائی، کے لئے سیاہی اور اشتہارات کے حوالے سے سخت پالیسی نے انہیں اخبارات کی قیمت بڑھانے پر مجبور کر دیا جس کی وجہ سے اخبارات خریدنا لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گیا۔


حکومت کی بےحسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنی ناجائز پابندیوں کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا کو تباہ کرنا چاہتی ہے، مہذب معاشرے میں حکومتوں کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا اپنے ملک کے میڈیا کی طرف سے ہوتا ہے جہاں حکومتی حکام سے زیادہ اپوزیشن رہنمائوں کو کوریج دی جاتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی خبروں، رپورٹس اور پیکیج پر حکومت اور اعلیٰ عدالتیں نوٹس بھی لیتی ہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے یہ انڈسٹری بھی اشرافیہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچی-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :