ایک پرانی کتاب کی آپ بیتی

ہفتہ 22 مئی 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

میں ایک پرانی کتاب ہوں- بیس سال پہلے میرے مصنف نے مجھے انتہائی اپنائیت سے لکھا تھا- میرے مصنف بہت اچھے اور قابل انسان تھے- انہی کی وجہ سے میں وجود میں آئی اور ایک خوبصورت شکل و صورت کی مالک بنی- میرے مالک ایک مصنف تھے، انھوں نے مجھے شائع کرواتے ہی ایک دکان میں فروخت کر دیا- دکان چونکہ کتابوں کی ہی تھی لہذا وہاں بہت سے کتابوں والے ریک (rack) تھے۔

میں دکان کے سب سے پہلے بک ریک کی زینت بنی۔
ایک طرف مجھے اپنے مالک سے جدا ہونے کا غم بھی تھا لیکن دوسری طرف علم سے بھری دوسری کتابوں کی ساتھی بننے پر خوشی بھی تھی۔ دکان کا ماحول بہت اچھا تھا جہاں میری طرح اور بہت سی کتابیں ان بچوں کی منتظر تھیں جو اگر دکان میں آئیں گے تو کتابیں خرید کر جائیں گے اور ہمارے اندر جو علم ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں گے- لیکن میری یہ خواہش تو بس ایک حسرت ہی بن کر رہ گئی- جب میں اس دکان میں آئی تھی تو مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ آجکل کے بچوں کو علم حاصل کرنے میں خاص دلچسپی ہے، لیکن اکثر بچے جو اپنے والدین کے ساتھ آتے، مجھے خریدنا تو کیا، میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے- میں دکان میں جس ریک پر رکھی ہوئی تھی اس کے سامنے ہی ایک کھلونوں اور موبائل فونز کا حصہ تھا۔

(جاری ہے)

جس کی وجہ سے بچے دکان میں داخل ہوتے ہی میری طرف رخ کرنے کی بجائے فورا ہی اس حصے کی طرف مائل ہو جاتے جو صرف کھلونوں اور ظاہری کشش کی اشیاء کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
جس ماحول سے میں اس دکان میں آئی تھی، وہ کافی مختلف تھا۔ جو شخص میرا مصنف اور مالک تھا انھیں علم اور کتاب سے بےحد محبت تھی۔ ان کے گھر میں کتابوں کی اہمیت بالکل بھی کسی انسانی جان سے کم نہیں تھی۔

کتابوں کوپڑھا جاتا تھا، سمجھا جاتا تھا اور ان کی قدر کی جاتی تھی۔ پچھلے زمانوں میں یعنی جو میرے آباؤاجداد کا زمانہ تھا، ہر چیز کے لیے کتابوں پر انحصار کیا جاتا تھا، بڑا آدمی بننے کے لیے کتابوں سے علم حاصل کرنے کو عبادت سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میری دادی کہتی تھیں کہ کتاب انسان کو پر لگا دیتی ہے اور وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔

یہ سن کر مجھے ایک کتاب ہونے پر فخر ہونے لگا۔ اپنی پہچان پر ناز ہونے لگا۔ لیکن اس دکان میں آنے کے بعد مجھے لوگوں کا رویہ دیکھ کر حیرانگی بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ آجکل کی نسل اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر دوسری غیر ضروری چیزوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ جہاں کتابیں خریدنے کی بجائے کھلونے، موبائل اور دوسری فضول چیزیں خریدتی ہے جو ان کے وقت کی بربادی کا سبب بنتی ہیں۔

کبھی کبھی میرا دل اس بات کو لے کر افسردگی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر ملک کے نو جوان یوں غافل اور کاہل رہیں گے تو ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
میں کچھ مہینوں کے لئے یونہی نظرانداز ہوتی رہی اور کسی نے مجھے گھاس نہیں ڈالی۔ میں نے سوچا یہاں اس دکان میں آ کر تو میں صرف اس ریک کی ہی ہو کر رہ گئی ہوں۔ پھر میری زندگی میں ایک انسان ایک خوشخبری بن کر آیا۔

اس کو دیکھ کر مجھے گمان ہوا کہ اس دنیا میں اب بھی کتابوں سے محبت کرنے والے اور کتابوں سے قربت رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ وہ سولہ سترہ سال کا ایک نوجوان لڑکا تھا جو دکان میں داخل ہوتے ہی میری جانب متوجہ ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی جیسے اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک نظر آنے لگی۔ وہ بے اختیار میری طرف بھاگا اور ریک سے مجھے انتہائی اپنائیت سے یوں اٹھایا جیسے سالوں سے میری ہی تلاش میں ہو۔

وہ نوجوان کوئی بھی لمحہ ضائع کیے بنا دکاندار کے پاس آیا اور مجھے خرید لیا۔
مجھے یقین تھا ایک نہ ایک دن اللہ تعالی مجھے میرے صبر کا صلہ ضرور عطا کرے گا۔ ویسے بھی مایوسی تو کفر ہے۔ ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیے خواہ حالات جو بھی ہوں۔ خدا پر بھروسہ کرنے سے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اچھے دن میری زندگی میں واپس لوٹ آئے۔ وہ نوجوان مجھے اپنے بستے میں ڈال کر اپنے گھر لے گیا۔

پورے پانچ بے زار مہینوں کے بعد میری زندگی میں یہ خوشی کا دن آیا تھا۔ گھر جا کر بستہ کھلتے ہی میری آنکھوں میں سفید روشنی امڈنے لگی اور میری تو جیسے دنیا ہی بدل گئی ہو۔ بستے سے باہر ایک خوبصورت باغیچہ تھا جہاں میرا نیا مالک مجھے پڑھ رہا تھا۔ ساتھ میں اس کی چھوٹی بہن بھی اپنی کتابیں پڑھ رہی تھی۔ میری خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ اللہ نے مجھے ایک ایسا ماحول واپس دے دیا تھا جہاں میری قدر تھی۔

میں تازہ ہوا میں بہت ادب سے پڑھے جانے پر بہت اچھا اور خوش قسمت محسوس کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ان کی والدہ محترمہ ان کو کھانے کے لیے بلانے آئیں۔ اور میرا مالک مجھے بستے میں ڈال کر اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گیا۔
پندرہ سال بیت گئے، میرا مالک ایک بڑا اور قابل آدمی بن گیا۔ میں اسکی پسندیدہ کتاب تھی۔ جب ایک دن وہ اپنے کمرے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا، تو اسکی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔

کچھ دیر گزرنے پر اس کے دوست نے کچھ تعجب سے پوچھا " تم کیا دیکھ رہے ہو؟" اس نے بہت محبت بھرے انداز میں میری طرف اشارہ کیا اور پرنم آنکھوں سے کہنے لگا "وہ میری کتاب ہے، میں آج جو بھی ہوں اس کی وجہ سے ہوں۔ یہ کتاب نہیں دوست ہے میری۔"
یہ الفاظ سنتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے کہ میری کسی کی زندگی میں اس قدر اہمیت ہے۔ اور اسی پہ مجھے میاں محمد بخش کا شعر یاد آ گیا:
اصلاں نال جے نیکی کریے
نسلاں تک نئیں بھلدے
بد اصلاں نال جے نیکی کریے
پٹھیاں چالاں چلدے
میں نے اس کے لیے اللہ سے دعا کی کہ وہ اپنی زندگی میں مزید کامیاب ہو۔

تب سے لے کر اب تک میں اسی کے بک ریک (book rack) کی زینت ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں کسی کی کامیاب و کامران زندگی کی ضمانت ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :