
سمندر کا چیلنج
ہفتہ 3 مئی 2014

خالد ارشاد صوفی
اس طیارے کی پراسرار گمشدگی کو نو ہفتے گزر چکے تھے لیکن دو درجن کے قریب دنیا کے سرکردہ ممالک کے جدید علوم و فنون سے آراستہ ماہرین کئی بحری و فضائی جہازوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے باوجود بدقسمت طیارے کا سراغ لگانے میں تاحال ناکام ہیں۔ طیارے کی تلاش کے دوران 4.5ملین مربع کلومیٹر سے زائد سمندر کی سطح پر طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔
(جاری ہے)
برمودا بحر اوقیانوس( Atlantic Ocean )کے کل 300 جزیروں پر مشتمل علاقہ ہے جن میں سے اکثر غیر آباد ہیں۔ صرف بیس جزیروں پر انسان آباد ہیں، وہ بھی بہت کم تعداد میں۔اس میں جو علاقہ سب سے خطرناک سمجھا جاتا ہے اسے برمودا تکون کہتے ہیں۔ اس تکون کا کل رقبہ 11,40,000 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کا شمالی کوناجزائر برمودا،جنوب مشرقی سرا پورٹوریکو اور جنوب مغربی سرا میامی (فلوریڈ امشہور امریکی ریاست) ہے۔ یعنی اس کا تکون میامی میں بنتا ہے۔ فلوریڈا کے معنی ہیں "اس خدا کا شہر جس کا انتظار کیا جا رہا ہے" اس کے دوسرے معنی "وہ خدا جس کا انتظار کیا جا رہا ہے"۔تقریبا چار سو سال سے کسی انسان نے ان ویران جزیروں میں جا کر آباد ہونے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ جہاز کے کیپٹن اس علاقے سے دور ہی رہتے ہیں۔ ان میں ایک جملہ بڑا عام ہے جو وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، " وہاں پانی کی گہرائیوں میں خوف اور شیطانی راز چھپے ہیں"۔
برمودا مثلث کی شہرت کا باعث وہ حیرت انگیز واقعات ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان واقعات کے مطابق کئی بحری اورہوائی جہاز اس بحری علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتا ہوگئے اور ان کاکوئی بھی نشان نہیں ملا۔اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی یا آسیبی مثلث بھی کہا گیا ۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان نے دنیا کے بہت سے سربستہ راز معلوم کر لیے ہیں تا ہم سائنسدان اور ماہرین ان بحری اور ہوائی جہازوں کی گمشدگی کا راز معلوم نہ کر سکے اور نہ ہی غرق ہونے والے مسافروں اور جہازوں کے ملبے کا کوئی پتاچلا سکے۔
عام خیال یہ ہے کہ فزکس کا کوئی قانون یہاں کام نہیں کرتا اور یہاں ہر طرف عجیب و غریب روشنیوں(شعاؤں) کا ہجوم رہتا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں شیطانی قوتوں کی حکومت ہے۔ جو مقبولیت آج اس علاقے کوحاصل ہے وہ چارلس برلٹیز( Charles Berlitz ) نامی شخص کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ''برموداٹرائی اینگل'' کے نام سے چارلس کی ایک کتاب 1974ء شائع ہوئی اور بعد میں اس پرایک فلم بھی بنائی گئی۔ چارلس کی کتاب ''برموداٹرائی اینگل'' میں ان ہوائی اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اورپراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں غائب ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو 5 دسمبر 1945ء کو یہاں پہنچ کر غائب ہو گئے تھے۔اس واقعے میں 14افراد بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس مثلث کے بارے میں سائنسدانوں کی سرگردانی صرف بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے غائب ہوجانے سے متعلق ہی نہیں بلکہ اب تک ہزاروں پائلٹوں، ملاحوں اوردوسرے بحری و ہوائی سفر کرنے والے مسافروں نے اس منطقے کو عبور کرنے کے موقع پر بہت سی حیرت انگیز اور مافوق الفطرت باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان پراسرار واقعات میں بھی یہ بات مشترکہ ہے کہ مسافر جب بھی اس ٹرائی اینگل کے قریب پہنچے ،ان کی گھڑیوں میں تعطل پیدا ہوگیا اور مشینوں نے اپنی حرکت بند کردی اور اس کا کنٹرول پائلٹوں اور ملاحوں کے اختیار میں نہیں رہا۔
موجودہ ریکارڈ کے مطابق پہلا بحری جہاز مارچ 1918ء میں لاپتا ہوا۔ سائی کلون نامی یہ ایک امریکی جہاز تھا۔ بعد ازاں 1952ء میں یہاں ''اسکارپین'' نامی امریکی ایٹمی آبدوز غائب ہوئی تھی۔ 23مارچ 1973ء کو ''آمتا'' نامی امریکی مال بردار بحری جہاز غرق ہوا جبکہ1950ء میں سپین کے تین بحری جہاز سمندر کی تہ میں چلے گئے۔ بحری اور ہوائی جہازوں سے جو آخری ریڈیائی پیغام موصول ہوا وہ یہ تھا کہ ''ہمارے تمام آلات سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگی ہیں'' اس کے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی۔ پانچ امریکی تارپیڈو بمبار جہازوں کی غرقابی کے بعد عملے اور ملبے کی تلاش میں بھیجا جانے والا ہوائی جہاز بھی برمودا تکون کے اوپرپہنچتے ہی پراسرار کشش کا شکار ہوگیا اور پھر اس کا بھی نام و نشان نہ مل سکا۔
مندرجہ بالا پراسرار واقعات کی روشنی میں بعض ماہرین قیاس کرتے ہیں کہ اس مقام پر سمندر میں موجود کوئی طاقتور مقناطیسی قوت بحری اورہوائی جہازوں میں نصب ریڈیائی آلات پر اثرانداز ہوجاتی ہے جس سے سارا نظام ہی معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔بعض مذہبی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ برمودہ تکون اصل میں دجال کا مسکن ہے۔بہرحال اس حوالے سے افواہیں،کہانیاں، اندازے اورحقیقت جو بھی ہے، سچ یہ ہے کہ آج حیرت انگیز سائنسی ترقی کے باوجود برموداٹرائی اینگل سائنسدانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔
اسی طرح جس طرح گمشدہ ملائشین طیارے کے ملبے ،239انسانی جسم اوران کا سازوسامان حتی کہ بلیک باکس سے خود کار نظام کے تحت نکلنے والے سگنلز کی مدہم آہٹ تک رسائی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ بے شک ہر راز اللہ کے حکم سے عیاں ہوتا ہے ،انسان کا کام تو جستجو ہے اور جستجو کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.