
قوم کی بیٹی
جمعرات 11 جون 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
باوثوق ذرائع بتا تے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وار کرائم میں ملوث متنازعہ بہت سے فوجی افسران کی سزا معاف کی ہے،ذمہ داران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ذہنی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ اب انکا مزید ٹرائیل جاری رکھا جاسکے، شائد کرہ ارض پر یہ واحد خاتون ہوں گی جن کو اس حالت میں بھی قید میں رکھا جارہا ہے،دنیا کی سپر طاقت اس نہتی، بیمار مسلم خاتون سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہے؟ تفتیش کے دوران امریکی فوجی پر محض گولی چلانے کی 86برس سزا قانونی، اخلاقی، مذہبی اعتبار سے لائق انصاف نہیں ہے۔یہ سزا اس جسمانی تشدد کے علاوہ ہے جو افغانستان کی سرزمیں پر بلگرام کے عقوبت خانے میں روارکھا گیا تھا، جس کی گواہی ، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم” ایشین ہومین رائٹس“ نے ان خدشات کے ساتھ دی تھی کہ قیدی نمبر۶۵۰ ممکنہ طور پر ڈاکٹر عافیہ ہی ہو سکتی ہیں جو ان دنوں امریکیوں کے ہاتھوں زیر عتاب تھیں، اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مظلوم ڈاکٹر عافیہ پر بیہمانہ پر تشدد واقعات کی تصدیق کی تھی، موصوفہ کو بحثیت پاکستانی شہری آئینی طور پر جان، مال کا تحفظ اسی طرح میسر تھا جس طرح عام فر د کو ہوتاہے، ان دنوں آئین ڈاکٹر صاحبہ کو تحفظ دینے میں اس لئے بھی ناکام رہا کہ وہ بیچارہ معطل تھا اور ایک سپہ سالار یہاں برسراقتدار مگرکسی سے ڈرتے ورتے نہ تھے۔
نسل نو کو بتانا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کون ہے،کراچی سے تعلق رکھنے والی مشرقی مزاج کی قوم کی یہ بیٹی نوے کی دہائی میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے امریکہ گئی تھی،بورسٹن یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں کوشاں تھیں، انھوں نے نورولوجی میں ڈگری لی، اور اپنے گھر کراچی آئیں،انکی آمد کے بعد نائن الیون کا سانحہ ہوگیا، اس کے بعد بھی وہ امریکہ چلی گئیں،۲۰۰۳ میں جب وہ پھراپنے وطن آئیں تو اچانک ایک ایجنسی ایف بی آر پر منکعشف ہوا کہ موصوفہ القاعدہ کی بہت بڑی آپریٹر ہیں، انکے دیگر دہشت گرد تنظیموں سے بھی تعلق ہے، پروپیگنڈہ کے اُ س دور میں کون نہیں جانتا تھاکہ ہمیشہ اسکی بات ہی سچ مانی جاتی تھی جو طاقت ور تھا، اسکی پاداش میں ہی ان پر ظلم اور تشدد روا رکھا گیا،اذیتیں دیں تاآنکہ وہ ذہنی طور پر متاثر ہو گئیں، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ عدالت نے جس جرم پر سزا سنائی تھی اس میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی الزام سرے سے عائد ہی نہیں کیاگیا بلکہ تفتیش کے دوران ایک امریکی فوجی پر گولی چلانے کا الزام لگایا گیا تھا،اُس وقت ہمارے ہاں امریکی عدالت کے فیصلہ پر ”ڈوگر کورٹ“ کی بپتھی کسی گئی تھی، ایک ایٹمی ملک کی بیٹی نا کردہ گناہ کی سزا امریکی جیل میں کرونا جیسے خوفناک ماحول میں بھگت رہی ہے، اگر کوئی پوچھے والا ہوتا تو اس وقت کے صدر بش سے پوچھتا کہ عراقی قوم کا خون امریکیوں سے کیا سستا ہے؟ جن پر جھوٹے الزام کی پاداش میں بم برسائے گئے مگر محض گولی چلانے پر اتنی بڑی سزا؟ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو اس سے کون سوال کر سکتا ہے اس کے لئے بھی دل، گردہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر قوم کا حافظہ کمزور نہ ہوتو ہم عرض کئے دیتے ہیں کہ کپتان نے بھی اپنے انتخابی منشور میں ان تمام سیاسی قیدیوں کو وطن لانے کا عہد کیا تھا، جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سر فہرست تھیں، اللہ تعالیٰ نے کرسی اقتدار پر انھیں برا جمان کر دیا ، ڈیڑھ سال سے وہ حکومت کو” انجوائے“ کر رہے ہیں کم از کم دو بار امریکہ کی یاترا بھی کر آئیں ہیں مگر قوم سے کیا گیا وعدہ وفا نہ ہوسکا ہے، اب تو وہ ماحول بھی نہیں ہے، القاعدہ قصہ پارینہ ہو چکی ہے، ڈاکٹر صاحبہ پر اس طرح کی تنظیموں سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں ہوا ہے تو پھر یہ کیوں پابند سلاسل ہیں؟
ہم سے بہتر تو وہ طبقہ نکلا، جو ایٹمی طاقت تو نہیں رکھتا مگر غیرت اور حمیت سے مالامال ہے، جنہوں انکل سام کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنے قیدی بلامشروط چھڑا لئے ہیں، طالبان ،امریکہ کے مابین” سہولت کار“ کا فریضہ جب ہماری سرکار مذاکرات کے لئے انجام دے رہی تھی تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا وہ سنہری موقع تھا، فائدہ نہ اٹھاکر غفلت کا ثبوت دیا گیا ہے، اس وقت جبکہ کرونا امریکی جیلوں تک سرایت کر چکا ہے، نسلی فسادات ا س کے علاوہ بڑا خطرہ ہے،سفارتی سطح پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کو ایجنڈا کا حصہ بنانا لازم ہے، تادم تحریرپارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس ہو رہا ہے، قربیا تمام پارلیمانی جماعتوں نے متاثرہ خاندان سے موصوفہ کی رہائی میں معاونت کا وعدہ بھی کر رکھا ہے، اسکو وفا کر نے کا موقع آخر کب آئے گا؟
اس وقت بڑی بڑی شخصیات جس طرح کرونا سے متاثر ہو ئی ہیں وہی اس کا درد محسوس کر سکتے ہیں،اس کے پیش نظر وہ باقی ماندہ کو محتاط رہنے کی جس شدت سے تلقین کر رہے ہیں وہ قابل توجہ ہے حالنکہ وہ اپنی ریاست میں اپنے پیاروں کے درمیان موجود ہیں، ذراچشم تصور میں لائیں کہ جن بچوں کی ماں غیروں کی قید میں ہو، اسکو کس قدر سنگین خطرات کا سامنا ہوگا؟ باوجود اس کے سویڈیش سے صومالی نژاد کی اذیت ناک موت کی حقیقت متاثرہ خاندان کے سامنے ہو، اپوزیشن میں ڈاکٹر عافیہ کپتان کے لئے قوم کی بیٹی تھی، اقتدار میں آتے ہی اس سے لاتعلقی ،بے اعتنائی کسی خوف کا پتہ دیتی ہے، کالم کی وساطت سے مقتدر طبقہ کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا وعدہ ہی یاد دلانا مقصودہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.