
ترقی کا سماجی ماڈل
ہفتہ 18 جولائی 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
عمومی رائے یہ ہے کہ اگر اس نظام کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے خلوص نیت سے چلایا جاتا تو یہ وڈیرہ شاہی،سرداری نظام کے خلاف ایک ”خاموش انقلاب “ مقامی سطح پرثابت ہوتا،مخالف کے ہر کام کوتنگ نظری سے دیکھنے اور اس میں کیڑے نکالنے کی قومی روایت نے ا سکو پنپنے نہ دیا کہ اٹھارویں ترمیم سے مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبوں کی جھولی میں ڈال دیئے گئے،اب ہر وفاقی اکائی قانون سازی اوراس کے انتخاب میں آزاد ہے،انکا انتخابی دورانیہ، طریقہ انتخاب بھی الگ الگ ہے۔ ممکن ہے ایک صوبہ میں یہ معطل ہوں تو دوسرے میں مقامی حکومت عوامی خدمت میں مصروف ہو،اس میں کیا حکمت پنہاں ہے، یہ توماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔
تاہم حالیہ کرونا وباء میں ان حکومتوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی، پنجاب میں انکی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا، مگرجہاں فنکشنل تھیں وہاں بھی صوبائی انتظامیہ ان پر حاوی دکھائی دی،جو انکے وجود سے انکار کی ایک صورت تھی،اراکین اسمبلی کا یہ تعصب نمایاں رہا، مقامی حکومت کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس میں مقامی اور عام شہری شامل ہوتا ہے، عالمی سطح پر بھی مقامی حکومت کو مضبوط جمہوریت کی بنیاد ماناجاتا ہے،اراکین کی اولین ذمہ داری قانون سازی ہے،مغرب میں نہ تو ان کو فنڈز دئے جاتے ہیں، نہ ہی یہ نالیاں اور سولنگ تعمیر کروانے کے
پابند ہیں، ہمارے ہاں سیاسی رشوت کے طور پر اس مشق کو جمہوری اور آمریت کے ادوار میں روا رکھا گیا ہے،جس سے یہ تاثر مضبوط پیدا ہوا کہ سیاست خدمت سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔
ترقی پذیر ریاستوں کے برعکس یورپی ممالک میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری مقامی حکومت کو ادا کرنا ہوتی ہے،فائر فائٹنگ سے لے کر گداگری کے تحفظ تک اور یتامی ٰ کے ادارے سے لے رفاعی کاموں تک،تعلیم، صحت کی ضرویات کو پورا کرنا، بچوں کی پیدائش،شادی بیاہ کا ریکارڈ رکھنا، تدفین میں سہولت دینا، لائبریری، میوزیم کا قیام عمل میں لانا، کسی نمائش کا اہتمام کرنا،درخت لگانا، پارک بنانا، سٹریٹ لائٹس لگوانا،سول ڈیفنس کی خدمت انجام دینا،سلاٹر ہاوس بنانا یہ عمومی فرائض ہیں، عرب ممالک میں تو قیمتوں پر کنٹرول رکھنا بھی مقامی حکومت یا بلدیہ کے ذمہ ہے، قومی خزانہ سے ملنے والی رقوم کے علاوہ ان خدمات پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے ٹیکس وصولی کا نظام بھی وضع کیا جاتا ہے،یہ قریبا تمام فراہم کردہ سہولتوں کی مد میں لیا جاتا ہے،جس میں پارکنگ ، بل بورڈ،انتقال اراضی ،شادی بیاہ ،پیدائش،دستاویزات کی تصدیق کی فیس کے علاوہ شادی ہالوں،تعلیمی اداورں،گاڑیوں،پراپرٹی سے ٹیکس لینا بھی محصولات میں شامل ہے۔
ہمارے ہاں بھی اگر ”سیلف گورنمنٹ“ فروغ پا جائے، عوام اپنے وسائل بڑھانے اور مسائل از خود حل کرنے کے اہل ہو جائیں،مقامی افراد کی فیصلہ سازی میں شرکت سے تو بلا امتیاز تمام علاقہ جات میں ترقی کا سفر مسلسل جاری ہو سکتا ہے،، دنیا میں سماجی ترقی کا یہ کامیاب ماڈل ہے۔
یونین کونسل کے لئے قریباً دس ہزا ر افراد پر مشتمل آبادی کا پیمانہ ہمارے ہاں مقرر ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اس آبادی کا ریکارڈرکھنا قطعی مشکل نہیں،افراد کی معاشی،سماجی حثیت،ناخواندہ بچوں کی تعداد،نومولود کا ڈیٹا مستقبل کی منصوبہ بندی میں بڑا معاون ہو سکتا ہے،اسکی وساطت سے موذی بیماریوں کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے،ناگہانی آفت میں مستحقین تک پہنچنا بھی آسان ہے،ہماری غالب آبادی دیہات میں مقیم ہے ،اسکی ترقی زراعت سے وابستہ ہے،لہذا ا نکے لئے وہاں روزگار کے مواقع فراہم کرنا ،زراعت سے متعلق کاٹیج اندسٹری لگانا سود مند ہو سکتا ہے ،شہروں کی بے ہنگم آبادی اس بات کی غماز ہے کہ ماضی میں دیہاتی آبادی کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کی بدولت انھیں شہروں کا رخ کرنا پڑا ہے۔دس دیہاتوں کے لئے ماڈل ہسپتال،کالج،ہر گاؤں میں طلباء و طالبات کے لئے ثانوی تعلیم کی سہولت،وٹرنری شفاخانہ،سیوریج،صاف پانی کی فراہمی، دیہات کی جامع مسجد میں اعلی تعلیم یافتہ خطیب کا تقرر، نیم خواندہ افرادکے لئے ووکیشنل ایجوکیشن،لایئوسٹاک کی خریدپر قرضوں کی بلاسود ادائیگی،ذہین طلباء وطالبات کے لئے وظائف کا اجراء ٹیکس کی آمدن،عشر اور زکوة کی باضابطہ وصولی سے سب کچھ ممکن ہے، یہ نظام سماج کے مختلف طبقات میں احساس محرومی ختم کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔
حلقہ بندیوں کے عمل سے مقامی حکومتوں کے انتخاب کا آغاز ہو چکا ہے جو انتخابی عمل کی بنیاد ہے تاہم ہمارے ہاں اس پر اثر انداز ہونے کی روایت بڑی پختہ ہے،مقتدر حلقے اگر آرزو مند ہیں کہ جمہوری عمل نچلی سطح تک سرایت کر جائے ،لازم ہے کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوں، تاکہ سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول تک وجود پا سکیں۔جب تلک اراکین پارلیمنٹ وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کریں گے،
ترقیاتی فنڈز کے سحر سے آزاد ہو کر مقامی حکومتوں کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کریں گے ، قومی ترقی کا روایتی سفر ہی ممکن ہو سکے گا،جمہوریت کے فوائد پر بھاشن دینے کی بجائے بلدیاتی نظام حکومت کے ماڈل کو اپنانا ہوگا جو سماجی ،اور جمہوری ترقی کی ضمانت بھی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.