
نمائشی اقدامات
پیر 10 اگست 2020

خالد محمود فیصل
قیام پاکستان کے وقت پر امید تھی کہ اب اس کے بھاگ جاگیں گے، آزادی کا سورج اپنی حیاتی میں دیکھ پائے گی،مگر ہندو سورماؤں نے غیر قانونی طور پر فوج داخل کر کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا،تاہم مجاہدین کی کاوش رنگ لائی اور آدھا کشمیر آزاد کروالیا گیا،اس جہاد کی تاب نہ لاتے ہوئے بھارتی قیادت اقوام متحدہ کے در پربے تابی سے دستک دینے لگی، بین الاقوامی برادری کے سامنے وعدہ کیاکہ کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے گا تب جنگ بندی ہوئی، لیکن یہ وعدہ تاحال وفا نہ ہوا،باوجود اس کے حالات ساز گار بھی رہے لیکن بھارتی قیادت کی بدنیتی آڑے آتی رہی،تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر مقبوضہ کشمیر کی رعایا نے اپنی ریاستی سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے،پھر وہ وقت بھی آن پہنچا کہ مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا، نوجوانان کشمیر نے بغاوت کردی،عقل کا تقاضا تھا،کہ ہندوستان کے حکمران اپنی جمہوری روایت کا بھرم رکھتے ہوئے ریفرنڈم کا اہتمام کرواتے ،اس عہد کو وفا کرتے جو انھوں نے عالمی برادری سے کیا تھا، اور اچھے ہمسایہ کے طور پر رہتے،اس سے نہ صرف کشمیر اور انڈیا میں امن قائم ہوتا بلکہ پاکستان سے اس کے مثالی تعلقات ہوتے،عوامی سطح پر بھی خوشحالی کا دور دورہ ہوتا لیکن اس کی ہٹ دھرمی نے پورے خطہ کو بارود کا ڈھیر بنا دیا،اسلحہ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ کا آغاز ہو گیا ہے،جس کا ایندھن پورا علاقہ بن رہا ہے۔
(جاری ہے)
ہم صرف انڈیا ہی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھراتے بلکہ عالمی برادری بھی برابر کی شریک ہے،کیا اقوام متحدہ اتنا ہی بے بس ادارہ ہے جو ایک ملک پر اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہا ہے؟اگر بتدریج اس کے غیر قانونی اعمال کا نوٹس لیا جاتا تو اس وقت کی مودی سرکار کو آئینی تبدیلی کے ذریعہ کشمیر کی حثیت ہی ختم نہ کر سکتی،ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہندوہستان کا وہ دانشور طبقہ کہاں گم ہے، جسکو اپنی جمہوریت پر ناز ہے،سیکولرازم جس کی پہچان ہوا کرتی تھی،کیا وہ بھول گیا ہے کہ جس ریاست کے وہ باسی ہیں اس میں کوئی ایک قدر بھی مشترک نہیں، بہت سے مذاہب، زبانوں، کلچر،تہذیب کا یہ دیش ہے اسکی اگر کوئی ”بانڈنگ فورس “ہے تو سیکورازم ہے،لیکن بھارتی سرکار کی ساری پالیساں اس ازم کے بالکل مخالف ہیں،حال ہی میں شہریت بل نے اسکے جمہوری ہونے کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا، اگر تو ہمسایوں کی تبدیلی ممکن ہے تو اس طرح کے اقدامات کا رسک لیا جا سکتا ہے،دکھائی یوں دیتا ہے کہ مودی سرکار کسی بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہے، وہ کشمیری قیادت جو کبھی ہندوستان کا دم بھرتی تھی، اب اپنے فیصلوں پر ناد م ہے اور برملا ہندو قیادت سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے،مودی سرکار نے ان وفاداروں کو بھی سلاخوں
کے پیچھے دھکیل کر اپنا جمہوری چہرہ داغدار کر لیا ہے۔
اس وقت تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج ہیں،کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق ہی سلب کے جاچکے ہیں،وہ
کس کرب سے گذر رہے ہیں،اس کا اندازہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر نہیں ہو گا۔نہ ہی الزام تراشی سے انکو سکون ملے گا، اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو گا کہ گھروں سے بیٹیاں بنا کسی جرم کے اٹھا لی جائیں،نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا جائے،ہم اس باپ کی دلی کیفیت کو کیسے لفظوں میں بیان کر سکتے ہیں،جس کا جواں سال بچہ جو بڑھاپے کا سہاراہو آنکھوں کے سامنے بنا کسی جرم کے سیکورٹی فورسز اٹھا کر لے جائے ،اور یہ بھی معلوم نہ ہو کبھی زندگی میں وہ مل پائے گا یا نہیں،ان بہنوں پر کیا بیت رہی ہوگی،لمحہ بھر کے لئے خود کو اس مقام پر رکھ کر تو دیکھیں اور سوچیں کہ کشمیری نوجوان آزادی کتنی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے،اس کے والدین کو غلامی کا کتنا خراج ادا کرنا پڑرہا ہے ۔
جنت نما اس وادی میں تمام عالمی ضابطے دم توڑ رہے ہیں،کسی حکمران کے کان پے جوں نہیں رینگتی،کسی کی آنکھ بھر نہیں آتی،کسی کا دل نرم نہیں ہوتا،ظلم کا یہ نظام آخر کب تک ہماری بے ہسی کی شہادت دے گا؟
برہان وانی کی شہادت کے بعد تو بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے،پیلٹ گن چھروں نے نوجوانان کی بینائی چھین لی ہے،اس کے باوجود وہ رات بھر سو نہیں سکتے کہیں فورسز اٹھا کر نہ لے جائیں،والدین بچوں کی بینائی جانے پر ڈپریشن کا شکار ہیں،بچیاں انجانے خوف میں مبتلا ہیں،ذرائع بتاتے ہیں کہ کشمیر وادی میں ذہنی بیمارویوں میں مبتلا افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،اب یہ اعدادوشمار لاکھوں تک جا پہنچے ہیں،ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف گھر سے اٹھائے جانے کا ہے۔اس افسردہ ماحول میں زندگی کی گذر بسر بڑے حوصلے اور جرات اور ہمت کا کام ہے۔
ان مظلوم کشمیروں کا پاکستان کی طرف دیکھنا اخلاقی اور اصولی اعتبار سے لازم ہے ایک تو یہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے،دوسرا پہلے بھی جہاد سے کشمیر کے ایک حصہ کو آزادی ملی، دنیا کی منظم فوج ہمارا ملک رکھتا ہے،باقی ماندہ علاقہ کی آزادی اس پر قرض ہے کیونکہ بانی پاکستان نے وادی کشمیرکو شہ رگ قرار دیا ہے،ہماری لائف لائن اس کی آزادی سے وابستہ ہے۔
گذشتہ دنوں آرٹیکل370 کے خاتمہ کی یک سالہ مدت پر پوری قوم نے یوم استحصال منا کر کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے ہماری سرکار کی جانب سے قومی نقشہ میں وادی کشمیرکااضافہ اور اسی مناسبت سے شاہراہ کشمیر کا نام سری نگر سے منسوب کرنے کی سرگرمی کو ناقدین نمائشی اقدامات سے تعبیر کر رہے ہیں ،مودی سرکار کی جارحیت ،حریت قیادت کا پابند سلاسل ہونا، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی،کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا جیسے سنگین عوامل کے سا منے، اسلام آباد کاردعمل زیادہ جری نہیں ہے، شنید ہے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پھر سے اٹھایا جا رہا ہے،بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ مسٹر مودی کو جنوبی ایشاء کا ” ہٹلر“ کہہ رہے ہیں،سفارتی محاذ پر انڈیا تنہا اوراپنی متعصبانہ گورننس کا بوجھ اٹھانا اب اس کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔
ان حالات میں عالمی اور سفارتی محاذ پر اہل کشمیر کی بے بسی، انڈین فورسز کی سفاکی،بنیادی حق سے محرومی کی جانب ہمارا دنیا کو متوجہ کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے،ماضی کے نت نئے بدلتے موقف،اور نمائشی اقدامات نے کشمیر کاز کو کافی کمزور کیا ہے،ایسانہ ہو کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے کشمیریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے،اور پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.