تجارت

منگل 25 مئی 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

حالیہ ماہ مقدس میں حسب روایت جس طرح تاجر برادری نے منافع کی انتہائی شرح پر اشیاء فروخت کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا تھا،اسکی مثال کسی مہذب معاشرہ میں نہیں ملتی،وہ اشیاء جو رمضان کے مبارک مہینہ سے چند دن قبل ارزاہ نرخوں پر مل رہی تھی، اس ماہ کے شروع ہوتے ہی اِنکی قیمت میں کئی سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا، ایک مسلم سماج میں یہ روش انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے، کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک کے تاجر اس ماہ کے احترام میں مسلم کیمونٹی کے لئے ضرورت زندگی کی اشیاء اس لئے سستی کر دیتے ہیں تاکہ زیادہ زیادہ افراد اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں، نجانے تاجر برادری عوامی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کس طرح اپنے ضمیر کو مطمعین کر سکے گی۔


ر وایت ہے کہ شہر مدینہ کے معروف تاجر اور عشرہ مبشرہ سے تعلق رکھنے والے صحابی عبد الرحمان بن عوف نے ایک بار ہزار اونٹوں کا سودا قیمت خرید کر ہی کر دیا، دیکھنے والے حیران رہ گئے اِن سے سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے بغیر رسی کے سودا کیا ہے یوں مجھے ایک ہزار درہم رسی کے بچ گئے دوسرا ایک دن کی غذا کا ایک درہم ایک اونٹ بچ گیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں کئی کئی سو اونٹ دے دیتے تھے، ان سے کامیاب تجارت کا راز پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ کم منافع پر زیادہ فروخت کو ترجیح دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


کاروباری دنیا میں ایک معروف نام ہنری فورڈ کا بھی ہے،امریکی ریا ست مشی گن میں پیدا ہونے والا یہ شخص 84 برس کی عمر میں وفات پاگیا لیکن اس نے تجارتی دنیا میں اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں،امریکہ میں جب کار کا حصول صرف اُمراء ہی کا مقدر تھا اس نے مشہور زمانہ فورڈ کمپنی کی بنیاد رکھی اور گاڑیاں تیار کرنا شروع کیں،اپنی کاروں کی قیمت اس قدر کم رکھی کہ عام امریکی شہری باآسانی گاڑی خرید کر سکتا تھا،نہ صرف یہ بلکہ اِس نے اَپنے ملازمین کی تنخواہ میں دوگنا اضافہ بھی کیا،اِنکے کام کے اوقات کار میں کمی بھی کر دی رفتہ رفتہ اس کمپنی کو وسعت ملی یورپ اور دیگر ممالک میں اِسکا کاروبار پھیلنے لگا،ہنری فورڈ کا نظریہ تھا کہ کم منافع پر بڑی تعداد میں اپنے آرٹیکلز فروخت کرنازیادہ بہتر ہے بجائے اس کے زیادہ منافع پر کم اشیاء کی فروخت ہوں، اس پالیسی کے تحت زیادہ سے زیادہ گاہک خریدو فروخت کے مرحلہ سے گذرے گا،لوگوں کی بڑی تعداد کو کام میسر آئے گا، معاشی سرگرمی تیز تر ہوگی۔


اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاجر کو اقتصادی ماہر بننے کی بجائے اپنے کاروبار پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے،اور وہ قرض پر کم سے کم انحصار کرے، بنک کو صرف اتنی اہمیت دے کہ یہ پیسے رکھنے کی محفوظ جگہ ہے۔
دنیا کی مشہور کمپنی ” مارٹ وال“ نے بھی خریدو فروخت کے اعتبار سے کچھ راہنماء اُصول چھوڑے ہیں جس میں آج کے تاجر کے لئے کاروبار کا بڑا سامان موجود ہے،2016 کے اعداووشمار کے مطابق اِسکے ملازمین کی تعداد اور ریونیو کو سامنے رکھیں تو اس کمپنی کا شمار بھی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں ہوتا ہے،اس نے اپنے گاہکوں کے لئے ایک غیر متوقع پالیسی کا اعلان کیا کہ گاہک اپنا
 سامان خرید کرے پھر ایک خاص مدت کے اندر وآپس کر دے، اور اپنے پورے پیسے وآپس لے جائے،کہا جاتا ہے کہ صحابی رسول نے دوکان کھولی پھر چند دن کے بعد اِسکو بند کر دیا،حالانکہ ان کا کام چل پڑا تھا، بند کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تو محض فضلیت کیلئے کھولی تھی، ایک بار نبی آخر زمان سے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جنت کی بشارت دی ہے جو خریدا ہوا سامان خوش دلی سے گاہگ سے وآپس لے اور پوری رقم اس کو دے ۔

ہماری مارکیٹ میں ایسے باریش، الحاج،درویش صفت کاروباری افراد کی کمی نہیں ہے،جنہوں نے دوکان میں جعلی حروف میں لکھا آویزاں کیا ہوتاہے کہ خریدا ہوا مال وآپس اور تبدیل نہ ہو گا۔
عصر حاضر میں ایک نام عبداللہ بن صالح کا مسلم دینا سے سامنے آتا ہے، یہ سعودی شہری ہیں اور کاروباری طبقہ سے وابستہ ہیں، انھوں نے تجارت کے کچھ راہنماء اصول اپنی کمپنی کے لئے وضع کر رکھے ہیں،اس پر وہ سختی سے عمل پیرا بھی ہیں،ان میں قابل ذکر کم منافع پر زیادہ فروخت ہے، نیزنیک کاموں میں مال خرچ کرنا، مال کی کوالٹی پر سمجھوتہ نہ کرنا،دیانتداری سے کام کرنا، گاہکوں اور ملازمین سے خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی شامل ہے۔

اگر اس کسوٹی پر اپنی تاجر برادری کو رکھیں تو انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی، جنہوں نے کچھ تجارتی اخلاقی اصول وضع کے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔
ہمارا شمار اِس بدقسمت سماج میں ہوتا ہے،جہاں اشیاء کی قیمت ادا کرنے کے باوجود بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ چیز اصلی ہے یا کہ نقلی،حلقہ احباب میں سے ایک تعلق کاروباری دنیا سے ہے،انکا کہنا تھا کہ غلہ منڈی میں ایسے ایسے دھندے کے جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا حاجی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا،وہ تمام غذائی اور روغنی اشیاء جن کا تیل مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے، انکو خاص مشین میں ڈال کر حرارت سے انکا تیل نکال کر بھی اِنکو مہنگے داموں اصلی کہہ کر فروخت کر دیا جاتا ہے، راقم کو کسی چیز کی خریداری کے لئے غلہ منڈی جانا پڑا، ایک شناسا سے تذکرہ کیا تو گویا ہوئے یہاں سے مت خریدیں ،اسکی نقل ملے گی۔


عوامی سطح پر تاجر برادری کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی، صاحب ثروت ہونے کی بناء پر اللہ کے گھر اوردر حبیب پر حاضری کا یہ قابل ذکر ریکارڈ بھی رکھتے ہیں سوشل میڈیا میں زیادہ زیر عتاب اس لئے بھی رہتے ہیں،مصنوعی مہنگائی کر نے کا فن ان سے بہتر کون جانتا ہے،ذخیرہ اندوزی سے لے ملاوٹ کر نے تک سارے جرم ان کے ہیں،زیادہ منافع کے خبط میں یہ تمام اخلاقی کاروباری اُصول خاک میں ملا دیتے ہیں، ان کے حوصلے اس لئے بھی بلند ہیں کہ یہ پیسے، سفارش، رشوت کے بل بوتے پر قانون کی پناہ میں آجاتے ہیں، اِنکی دیکھا دیکھی آن لائن کاروبار کرنے والے والوں نے بھی اپنی پروڈکٹ کی فروخت میں دھوکہ دہی کا وطیرہ اپنالیا ہے ،حالانکہ نامساعد حالات میں اس طرح خریدو فروخت کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔


مقام شکر ہے کہ آن لائن عالمی تجارت میں شمولیت کا موقع ہر پاکستانی کو مل رہا ہے، لہذا انھیں اپنی ساخت کو بہتر بنانے اور قومی وقار کو سامنے رکھتے ہوئے اِن سنہری تجارتی اصولوں کو سامنے رکھنا ہو گا جن کا تذکرہ کیا ہے،نسل نو اگر روایتی تجارت کو بدل کر اچھی
طرح ڈالے گی،نادر مثال قائم کرے گی تو اِنکا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا،ایمزون کی وساطت سے کاروبارکے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے کم منافع زیادہ کاروبار کا اصول ہی معاشی سرگرمی کو فروغ دے سکے گا۔زیادہ امتحان تو اب اس مذہبی طبقہ کا ہے جس نے اپنی نئی نئی پروڈکٹ لانچ کی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :