طوطی کی آواز

جمعہ 4 جون 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اسرائیل نے عرب دنیا کے حکمرانوں کی” نئی محبت“ کی بھی لاج نہیں رکھی،جو اس سے تعلقات بڑھانے کے لئے نہ صرف بے تاب تھے بلکہ مسلم دُنیا سے دیگر حکمرانوں کو بھی اس” ناجائز ریاست“ سے سفارتی روابط بڑھانے پر آمادہ کررہے تھے،قبل اس کے کہ ساری مسلم دنیا بھی اِن کے قدم پر قدم رکھتی ،اسرائیل انتظامیہ نے ماہ مقدس میں نمازکے دوران نہتے فلسطینیوں پر حسب روایت گولیاں برسا کر خبث باطن کو ظاہر کر دیا، اس ظلم کی باز گشت پوری دنیا میں سنی گئی،ہزاروں انسان اِنکی حمایت میں سڑکوں پر نکلے،یورپ سے لے کر ایشاء تک نے بچوں، خواتین کی شہادت پر دکھ اور رنج کا اظہار کیا ،لیکن امارات ، حجاز مقدس سے اِس نوع کا عوامی احتجاج برآمد نہ ہواتاآنکہ دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی ہوگئی، یہ عارضی صلح راکٹوں کے نتیجہ میں ہوئی جو حماس نے پُر تشدد واقعات کے ردعمل میں اسرائیل پرداغے، اہل پاکستان نے بھی عوامی طاقت کا بھر پور اظہار کیا، تاہم فلسطین کے حق میں کراچی میں جماعت اسلامی کی عوامی ریلی کو مغربی اور دیگر میڈیا نے بھی خوب کوریج دی ۔

(جاری ہے)


کہا جاتا ہے کہ1896 میں وی آنا کے ایک یہودی صحافی ڈاکٹر پرزل نے” ریاست یہود“ کا ٹھوس تصور پیش کیا تھا،تب سے فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت کا باقاعدہ آغاز ہوا،سب سے پہلے روس سے کچھ یہودی ارض مقدس پہنچے تو برطانیہ نے اِنکی مدد کی تھی،انگریزوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبدالحمید اورڈاکٹر پرزل کے مذاکرات کے ذریعہ یہودیوں کی خود مختیاری تسلیم کرانے کی پوری کاوش کی تھی مگر سلطان نے صاف انکار کر دیا تھا۔

اِس جرم کی پاداش میں اس کا تختہ الٹنے کی دانستہ کاوش کی جو1908کامیاب ہوئی اور سلطان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔اس تاریخی انقلاب کے بعدترکی میں جو وزارت بنی ،یہ بصاریہ آفندی،نسیم مزلک اور جاویہ تین ارکان پر مشتمل تھی یہ یہودی تھے اِنکی کاوشوں سے بلا آخر1912 میں” اعلان بالغور“ ہوا اس کی وساطت سے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کا اعلان ہوا، یہودی غریب فلسطینیوں سے سستے داموں زمینیں خرید کر اپنے قدم جماتے گئے، برطانوی کمشنر سموئیل نے یہودیوں کو زمین کی آبادی کاری کے لئے قرضے بھی دیئے،سرکاری اراضی انھیں مفت دی گئیں،مختلف ممالک سے آئے یہودی چھپ چھپ کر آباد ہوتے رہے،1939 میں اِنکی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی، انکی آمد کے ساتھ ہی عام عرب آبادی سے ان کے تنازعات کا آغاز ہو اجس نے بعد ازاں خون ریزی کی شکل اختیار کر لی اُس وقت فلسطین کی حکومت بھی انگریز کے زیر نگرانی آگئی تھی،اِن جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے لندن میں اس عہد میں گول میز کانفرنس ہوئی،اہل عرب اور یہودیوں میں کوئی مصالحت نہ ہو سکی تھی،اس سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے نظام حکومت کو معطل کر نے کے لئے پرُ تشدد کاروائیوں شروع کر دیں تھیں،انگریزی حکومت نے اس کو بہانہ بنا کر دو ریاستوں کے قیام کا اعلان کر دیا۔


فلسطین میں برطانوی اقتدار1948کو ختم ہوا اسی سال یہودیوں نے ایک آزاد، خود مختیار ریاست کا اعلان کر دیا،29 مارچ1949کو برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ کمیٹی” اینگلو امریکن“ نے فوری طور پر ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلہ کی اجازت دے دی،یوں دو ہزار برس تک دُنیا میں بے سروساماں بھٹکنے والی اس قوم کو عالمی استعمار کی حوصلہ افزائی سے ایک سرزمین میسر آگئی جو تاحال متنازعہ بنی ہوئی ہے۔

عالمی گماشتوں کی ایماء پر اسرائیل نے 1967کی جنگ کے نتیجہ میں اپنی حدود میں اضافہ بھی کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ جس کے فرائض میں عالمی تنازعات کو حل کروانا ہے وہ بُری طرح ناکام رہا ہے اس وقت بھی فلسطین کے حق میں کم وبیش دو سو سے زائد قرادادیں اِس فورم سے منظور ہو چکی ہیں لیکن اسرائیل کی بدمعاشی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اس لئے کہ اقوام متحدہ کے پاس کوئی قوت نافذہ سرے سے موجود ہی نہیں یہی اسکی ناکامی کا بڑا سبب بھی ہے،دوسرا عالمی امن کو بھی یو این او نے خانوں میں بانٹ رکھا ہے،اگر معاملہ کسی طاقت ور ریاست کا ہو تو قرارداد نہ صرف منظور ہوتی ہے بلکہ عالمی فورس نیٹو فوری حرکت میں آجاتی ہے مگر جب مسئلہ اُمت مسلمہ کو درپیش ہو تو پھر لیت ولعل سے کام لیا جاتا ہے،بڑی طاقتوں کی اس ادارہ پر اجارہ داری نے اِسکی بے توقیری میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔


اس ماحول کو دیکھتے ہوئے مسلم دنیا نے اپنے مسائل کے حل کے لئے الگ فورم بنایا تھا،اس کے سیکٹریریٹ سے لے کر باہمی تعاون کے ادارے تک وجود میں لائے گئے،مسلم دنیا کی یہ آرگنائزیشن مردہ گھوڑا ثابت ہوئی ہے،گذشتہ دنوں مسلم دنیا کی فوج کا بھی بڑا شورو غوغا رہا،جب اس کا قیام عمل میں لایا گیا تو بلند بانگ دعوئے کئے گئے لیکن حالات نے ثابت کیا کہ چند شاہی خاندانوں کی خوشنودی اور حفاظت کے لئے وجود میں لائی گئی تھی۔


 جب پورا عالم اہل فلسطین کے حق اور اسرائیلی ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھا تو او آئی سی نے محض مذمتی قرار داد پاس کرنے پر اکتفاء کیا، اگر یہی وطیرہ 55 ممالک کی تنظیم نے اَپنانا ہے تو پھر بھاری بھرفنڈز مختص کرنے، دفاتر اور سیکٹریٹ کے قیام کی کیا ضرورت ہے، اس لئے ہماری بات کو عالمی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی اور مسلم دنیا کے اس مایوس کن رویہ نے فلسطین،کشمیر کے نوجوانان کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کیا ہے ۔


سب سے پہلے بیت المقدس کا قبضہ ختم کرانے کے لئے پی ایل او قائم کی گئی ،اس کے رویہ سے دلبرداشتہ نوجوانان فلسطین نے مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا اور مسلح گروہ وجود میں آئے،اِنکے قیام کی ایک وجہ وہ معاہدات ہیں جو وہاں کی عوام کی منشیٰ کے بغیر بڑی طاقتوں کے زیر اثر رہ حکمرانوں نے کئے ہیں، حماس نے 2005سے مزاحمتی تحریک کو چھوڑ کر سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اس کے مینڈیٹ کو بھی دل سے قبول نہ کیا گیا،محمود عباس کی الفتح بھی اِسکو اپنا حریف سمجھتی رہی ہے۔


تلخ حقیت تو یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ میں فلسطین ایسے سلگتے ہوئے تنازعات ہیں جن کے حل ہی سے دُ نیا کا امن وابستہ ہے،لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی کی جن عالمی طاقتوں نے اِن کو جنم دیا ہے ان مسائل کے حل میں آج بھی وہی بڑی رکاوٹ ہیں لیکن اُمید یہ ہے کہ وہ برطانیہ جہاں مظاہرہ کے لئے چند ہزار افراد جمع کر نا محال ہے وہاں کے شہر لندن میں لاکھوں افراد کے فلسطین کے حق میں مظاہرہ نے اقوام متحدہ کی قیادت کو متحرک ہونے پر مجبو ر توضرور کر دیا ہے۔


 اہل فلسطین کے حق میں عالمی عامہ سے کی اس لہر سے مستفید ہونے کے لئے لازم ہے افغانستان ،یمن، شام ،مصر،عراق ،کشمیر،فلسطین میں بہنے والے لہو میں مسلم دنیا کوئی فرق روا نہ رکھے،اپنے باہمی جھگڑے بھی پس پشت ڈال دے ورنہ نقار خانے میں اسکی صدا ہمیشہ طوطی کی آواز ثابت ہو گی، اور مظلومین کا لہو ایسے ہی بہتا رہے گا،جس کا حساب بہر حال مقتدر طبقہ کو تو دینا ہی پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :