”بہروپئے سیاستدان “

منگل 2 مارچ 2021

Khalil Ur Rehman Alvi

خلیل الرحمن علوی

پاکستان میں انتخابات ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اب تک ملکی تاریخ کا کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس کی شفافیت کی تمام جماعتیں گواہی دیں۔ جو جماعت الیکشن جیتی وہ اپنے آپ کو عوامی منتخب جماعت جبکہ اپوزیشن سے دھاندلی اور الیکشن چوری کرنے جیسے الزامات لگائے۔ملک میں طویل عرصے سے انتخابی اصلاحات کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا تھا۔

اس بارے مختلف لیڈروں نے قوم سے وعدے بھی کئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہ کئے۔ تبدیلی سرکار نے بھی الیکشن کے طریقے کار میں تبدیلی کا وعدہ کیا تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سینٹ الیکشن میں تبدیلی کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ یقینا سینٹ الیکشن کافی عرصہ سے متنازعہ تھے۔ اس سے پہلے ان کو بہتر بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے سینٹ اُمراء کی انٹر ٹینمنٹ کا کلب بن کر رہ گیاتھا۔

(جاری ہے)

منتخب ہونے والے سینیٹر سینٹ میں بھی نہیں جاتے تھے لیکن اس جانب حکومت کو اُٹھایا جانے والا قدم متنازعہ بن گیا۔اپوزیشن جماعتوں کا موٴقف ہے کہ حکومت جلدی میں سینٹ الیکشن شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانا چاہتی ہے۔ حکومت کو اپنے اراکین پر اعتماد نہیں ۔ حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی ہے جبکہ پہلے سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ بحث ہے تو حکومت کو آرڈیننس لانے کی کیا ضرورت ہے؟ اپوزیشن کے اعتراضات بھی جانبدار ہیں۔

دوسری طرف سینیٹ کے الیکشن 2018ء میں ممبران کی خرید و فروخت کی ویڈیو بھی عوام کے سامنے آگئی ہے جس پر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔
حکومت نے فوری طور پر متعلقہ وزیر کو مستعفیٰ کر دیا ہے ۔ حکومتی موٴقف یہ بھی ہے کہ اس کا یہ اقدام قومی مفاد میں ہے، اس سے الیکشن میں خرید و فروخت کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ الیکشن کی شفافیت یقین ہو۔

تبدیلی سرکار اور اپوزیشن کو مل کر ایسا انتخابی طریقہ وضع کرنا چاہیے جس سے کرپشن اور بد عنوانی کے راستے بند ہو ں اور سینٹ میں صاف و شفاف لوگ جو قوم و ملک کے مفاد میں فیصلے کریں گے آگے آنے چاہیئں۔یہاں عوام اس بات کو یا د کریں گے پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ، جمہوریت ہو یا آمریت ہر دور میں مشقِ ستم صرف عوام ہی بنتے ہیں۔ ایک پارٹی جب حکومت میں آتی ہے تو دوسری کو دکھ اور غم کھائے جاتا ہے کہ یہ قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں اور ہم باہر کیوں ہیں وہ کرپشن اور الیکشن میں دھاندلی کا شور مچانے لگتے ہیں۔

سیاستدانوں کو عوام کی پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں۔”عوام جائیں بھاڑ میں“ کے مصداق انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں ملک و قوم کے نہیں۔ اس کی زندہ مثال ”میثاقِ جمہوریت“ معاہدہ جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہوا تھا عوام کے سامنے ہے۔اپنے ووٹوں کو بیچنے والوں اور قوم کی امانت میں خیانت کرنے والوں کے خلاف بھی شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے تا کہ آئندہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ملک و قوم کی دنیا بھر میں بدنامی ہو۔


تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ملک میں بی ڈی ممبرز کے الیکشن ہوں یا کونسلر کے، ناظمین کے ہوں یا چیئر مینز کے ، تاجروں کے ہوں یا کسی یونین کے ، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ہوں یا سینٹ کے ہر الیکشن میں بولیاں لگتی ہیں جو جماعت یا گروپ جس امیدوار کو زیادہ پیسے دیتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں ۔ ایسے الیکشن قوم و ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کی بجائے کرپشن کی جانب لے جاتے ہیں اور نیچے سے اوپر تک ہر شخص کرپشن کی بہتی گنگا میں نہانے لگتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ صرف چہر ے نہ بدلیں۔ ہمیں نظام بھی بدلنے کی ضرورت ہے جس کی شفافیت پر کوئی فریق انگلی نہ اُٹھا سکے ، ورنہ تبدیلی سرکار اور ان جیسے کئی ہم تو اہم پر بھیس بدل بدل کر آتے رہیں گے اور قوم و ملک کو لوگ کہ عوا م کو کنگال اور خودنہا ل ہو تے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :