لیڈر نہیں حکمران

پیر 8 مارچ 2021

Khalil Ur Rehman Alvi

خلیل الرحمن علوی

جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن لازم و ملزم ہیں ۔ بلکہ حقیقی معنوں میں اپوزیشن جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ اگر جمہوریت کے دونوں ستون اپنی اپنی جگہ درست کام کررہے ہیں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی ملک میں یہ دونوں ستون اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کر یں تو اس میں یقینا جمہوریت مضبوط ہوگی اور اس ملک کے عوام بکھرے ہوئے لوگوں کا گروہ نہیں بلکہ ایک قوم دنیا کے سامنے نمودار ہوں گے۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ عوامی نمائندگی کرتے ہیں یہ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہے۔
لیکن مقام صد افسوس ہے کہ پاکستان میںآ ج تک دونوں گروہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے کبھی بھی اکٹھے نہیں بیٹھے، اگرکبھی بڑی پارٹیوں میں میثاق جمہوریت نام کے معاہدے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ باری باری حکومت کریں گے۔

ہم لوٹیں گے تم خاموش، تم لوٹو گے ہم خاموش رہیں گے۔
کسی بھی حکومت نے آج تک ملک کی خارجی ، داخلی پالیسیاں بناتے ہوئے اپوزیشن کے اراکین سے کوئی مشاورت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی تاریخ ہمیشہ لڑائی جھگڑوں ، الزامات ، سیاسی بحرانوں سے بھری ہوتی ہے۔ ہماری سوچ کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ایسی جمہورتیں جن کو اپوزیشن ناکوں چنے چبواتی ہے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہو پایا۔

اس کو ہم ”ڈنڈے والی حکومت “ سے بہتر قرار دیتے ہیں۔ ہماری یادداشت بہت زیادہ کمزور ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ہمارے قائد نے ”سول مارشل لاء“ بھی لگا دیا تھا۔
ہمارے کئی سیاسی رہنما دشمنی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ برملا غیر جمہوری قوتوں کو لو لی لنگڑی جمہوریت سے بیساکھیا ں چھین کر گرانے کا کہتے ہیں۔ ان صاحبان اقتدار کو وہ جتنی بھی ”غریب مکاؤ“ پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں ان کو سو فیصد جمہوری اور آئینی نظر آئی ہیں۔

حقیقت میں صرف اور صرف اپنے سیاسی حلیفوں کو نوازنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اس سے صرف عوام کی کمر ٹوٹتی ہے ۔ اس سے بڑھ کر مردہ ضمیری اور کیا ہو گی کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے، بجلی اور گیس کے نرخ زیادہ کرنے کے بعد ہمارے حکمران ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اس کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، عوام یہ سن کر پریشان ہوتے ہیں یہ عام آدمی کو نسے لوگ ہیں۔

لیکن بھولے عوام اس کو سمجھتے نہیں کہ وہ عام لوگ اپنے جیسے ممبران اسمبلی، بیوروکریٹس اور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں کو کہتے ہیں ۔عوام کو تو ایسے لوگ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، عام آدمی نہیں۔
اگر ہمارے لیڈران سیاسی مخالفتوں سے بالا تر ہو کر قوانین کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی اناء اور عناد کو پس پشت ڈال کر مل بیٹھیں اور ملکی مفادات میں مشاورت کریں تو کئی سنگین مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔

ہم اپنی تعمیر ی اور مثبت سوچ کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ اس وقت ایسے ممالک کی کئی مثالیں موجود ہیں جو ملکی مفادات کیلئے ایک ہی میز پر اپوزیشن اور حکومت مذاکرات کرکے مسائل کو حل کر لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیڈران صرف نعرے لگانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے ماہر ہیں۔ جمہوری قوانین پر عمل کرنا تو ہم نے سیکھا ہے نہ ہی ہمارے بس میں ہے اور نہ ہی ہمارے لیڈر چاہتے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی نظر میں ملک دشمن ، غدار، ڈاکو اور چور ہیں۔ انہی غلط اور غیر جمہوری پالیسیوں کی وجہ سے ملکی سا لمیت خطرے میں ہے اور اب جمہوریت کی کشتی ڈوب رہی ہے۔ اسی جنگ میں اپوزیشن کی تنقید اب دشمنی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تبدیلی سرکار بھی اپنی خامیاں دور کرنے کی بجائے اپوزیشن کو ”تڑیاں “ لگا رہی ہے۔
اپوزیشن اگر واقعی ملک و قوم سے مخلص ہے اور حکومت سے چھٹکار ا اور نجات چاہتی ہے تو پھر قانونی راستہ اختیار کیوں نہیں کرتی ؟ اپوزیشن لیڈران ذرا قوم کو یہ بھی بتا دیں تقریباً 32ماہ میں صوبائی و قومی اسمبلی ، پارلیمنٹ، سینٹ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، غربت ، کرپشن ، پٹرول ، بجلی، گیس کی قیمتوں اور قوم کے باقی مسائل پر کتنے منٹ بات کی ہے۔

باتیں ہوئیں تو چور اور ڈاکو کی اور بس۔۔۔
ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور زراعت میں ترقی ہی ملکی خوشحالی کی ضامن ہے ، اس وقت ملک کی زرعی پیداوار بہت تیزی سے کم ہور ہی ہے، کسان مشکلات کا شکار ہیں اور غذائی بحران سر اٹھا نے لگے ہیں۔ گندم ، چینی اور آٹے کے بحرانوں پر بھی اپوزیشن نے عوام کی نمائندگی نہیں کی، اپوزیشن کی دھرنوں اور بار بار استعفوں کی دھمکیاں تبدیل ہو تی تاریخیں ان کی قوم سے مخلص ہونے کی عکاسی کرتی ہیں۔

اپوزیشن صرف یک نکاتی ایجنڈہ ”حکومت گراؤ ، اقتدار میں آؤ“کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اپوزیشن کے لیڈر ہوں یا حکومتی آلہ کار، ملک و قوم کو اب تک حکمران تو ملے ہیں لیڈر نہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو لیڈر بننا ہوگا تب ہی ملک ترقی کرکے بحرانوں سے نجات حاصل کر سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :