حکومتی مہنگائی اور پسے ہوئے عوام

بدھ 10 مارچ 2021

Khalil Ur Rehman Alvi

خلیل الرحمن علوی

تبدیلی سرکار نے حکومت میں آنے سے پہلے دعوے کئے تھے کہ ہم مہنگائی کو کنٹرول کر کے عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔لیکن مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد عوام سے کئے گئے تمام وعدے بھول گئے اور لوگوں کومسلسل مہنگائی ، بیروزگاری اور تنگدستی کی دلدل میں دھکیلنے لگے۔ دو ماہ میں چھٹی مرتبہ پٹرول کی قیمتیں بڑھا نے کی باتیں کی جارہی ہیں۔

جس سے مہنگائی کا شکار عوام کی پہنچ سے اشیائے ضروریہ قوت خرید کے دور ہو جائیں گی۔ عوام پہلے ہی معاشی بد حالیوں کی وجہ سے ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔ اب پھر پٹرول بم گرایا جانے لگا ہے۔
ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے جن لیڈران کو اقتدار سونپتے ہیں ان کی اکثریت کو آٹا ، گھی ، چینی، دالیں اور سبزیوں کے نرخوں کا پتہ نہیں، گزشتہ دنوں ن لیگ کی مرکزی نائب صدر مریم نواز شریف کا بیان کے انڈے کتنے روپے کلو ہیں جگ ہنسائی کا سبب بنا۔

(جاری ہے)

ہمارے لیڈروں کو یہ بھی معلوم نہیں انڈے درجن میں بکتے ہیں کلو میں نہیں۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ اب عوام کی قوت برداشت ختم ہونے کو ہے۔ حکمرانوں کو انقلاب فرانس کی تاریخ یاد ہوگی۔ جب اس ملک کے حالات اس طرح ہی تھے۔ صبح اشیاء کی قیمتیں اور ہیں تو شام کو اور۔ عوام تنگ آگئے تو باہر نکلے اور پھر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مزدور اور محنت کش طبقے نے کٹر مشینیں بنائیں جن میں وہاں کے حکمرانوں اور ان کے ہمنواؤں کو ڈال کر کاٹ دیا گیا تھا۔


اب پاکستا نی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیاہے ۔ حکمرانوں نے بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر قوم پر جو مہنگائی بم گرانے شروع کئے ہیں۔ عام آدمی کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ ملکی اثاثہ جات پر 2فیصد افراد کا قبضہ ہے، دوسری جانب سینیٹ کی سیٹوں کیلئے کروڑوں روپے کی منڈی لگ رہی ہے۔ عوام اور اس بات کو بھی مدّ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ 2018میں اشیائے خوردونوش کی کیا قیمتیں تھیں اور اب کیا ہیں۔

اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ اشیاء خوردونوش پٹرول ، گیس ، بجلی کے نرخ بڑھتے روپوں میں ہیں اور کم پیسوں میں ہوتے ہیں۔ آجر اور سرمایہ دار قیمتوں کے اضافے کے ساتھ ہی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن کم کرنے کا نام نہیں لیتے، دیکھا جائے تو عمرانی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔ اس بات کا اعتراف جناب وزیر اعظم عمران خان نے خود کیا تھا۔


عمرانی حکومت مخالفین کو تو چورچور اور ڈاکو ڈاکو کہتے تھکتی نہیں مگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں عوام کو کتنے سبز باغ دکھائے تھے۔1کروڑ نوکریاں، 50لاکھ گھر ، دنیا میں عزت و اعلیٰ مقام ، عمرانی دعوے ایسے غائب ہوئے جیسے ”گدھے کے سر سے سینگ“۔ اب صرف رہ گیا ہے تو مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا۔ حکمرانوں کو غریبوں اور درد کے بارے عوام کا ذرا برابر خیال نہیں۔

اگر حکمرانوں نے اب بھی خیا ل نہ کیا اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہ کیا تو شاید انقلاب فرانس سے بھی بھیانک انقلاب آئے۔ کیونکہ اب لوگ خودکشیا ں کرکر کے تھک گئے ہیں۔ اب ان عوام میں احتجاج کی طاقت اور حوصلہ نہیں ۔ا ب مزید مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ذبح نہیں ہونا چاہتے۔ اب ملکی معاشی حالات کسی خونی انقلاب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

مستند اقتدار پر براجمان لیڈروں نے اب بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات نہ کیے تو شاید یہ دنیا انقلاب ِ فرانس کو بھی بھول جائے اور پھر انہی لیڈروں کے نام لیو ا بھی لوگوں کے غیظ و غضب سے نہ بچ سکیں۔
ہمارے حکمران اگر عوام سے مخلص ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں مہنگائی اور غربت کی دلدل سے نکالا جائے تو عوام کو بھیک دینے کی بجائے انہیں روزگار دیں۔

چینی کہاوت ہے”مچھلی دو نہیں مچھلی پکڑنا سکھا دو“ یہی اربوں روپے جو بھیک میں دے رہے ہیں ان کی انڈسٹری لگا دیں۔ صنعتوں کے بند یونٹس چلادیں۔ اور جتنا زیادہ ہو سکے عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ جب عوام کو روزگار ملے گا تو مہنگائی سے لڑنا وہ خو د سیکھ جائیں گے۔ اور مزید یہ کہ ملکی وسائل اور معدنی دولت کو استعمال میں لایا جائے تا کہ معیشت مضبوط ہو سکے ۔ حکمرانوں کو اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ سوچنے کا وقت بھی نہیں ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :