کورونا ، وبائی مرض، احتیاط ، توبہ استغفار واحد علاج

جمعرات 6 مئی 2021

Khalil Ur Rehman Alvi

خلیل الرحمن علوی

اللہ تعالیٰ کے قوانین نظر نہ آنے والے ایٹم سے لے کر پورے نظام شمسی تک ایک ہی اصول کے تحت نافذ ہوتے ہیں۔ یعنی ایٹم میں نیوکلیئس ہوتا ہے اور اس کے گرد الیکٹران مختلف مداروں میں حرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح نظام شمسی ہے کہ سورج درمیان میں ہے اور اس کے گرد مختلف سیارے مختلف مداروں میں حرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ پاک کا یہ اصول ہے کہ جب کوئی قوم، معاشرہ یا فرد اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پھر حد سے بڑھ جاتا ہے تو اللہ پاک اس کو انتباہ کرنے کے لئے مختلف آزمائشوں کو بھیج دیتا ہے ۔

کبھی زلزلے آتے ہیں تو کبھی سیلاب اور وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں لیکن انسان اتنا نا سمجھ ہے کہ اللہ کی وارننگ کو نہیں سمجھتا ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر اس وقت کورونا وائرس کے کل مصدقہ متاثرین کی تعداد 14کروڑ 92لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس عالمی وبا سے 31لاکھ سے زیادہ اموات ہو ئی ہیں۔

(جاری ہے)

سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ ہے جہاں کووڈ 19کے تقریباً تین کروڑ 22لاکھ سے زیادہ متاثرین ہیں جبکہ پانچ لاکھ 74ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔

انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر ہنگامی صورتحال اختیار کر چکی ہے اور ایک کروڑ 79لاکھ متاثرین کے ساتھ یہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا نیا مرکز بنتا جارہا ہے۔ انڈیا میں مسلسل کئی روز سے یومیہ 3لاکھ سے زیادہ نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں اور متعدد علاقوں میں لوگ اپنے عزیزوں کے لئے آکسیجن اور وینٹی لیٹر کا انتظام کرنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔

پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کے دوران نئے مریضوں کی تعداد ایک مرتبہ پھر تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ ملک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری مگر سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان مین تین مئی سے 40سے 49برس کے افراد کی ویکسی نیشن کا آغاز ہورہا ہے۔
انسانی تاریخ میں حضرت یونس  کی قوم کی نافرمانیاں جب حد سے بڑھ گئیں تو اللہ کے نبی حضرت یونس  نے انہیں عذاب کی وعید سنا دی۔

اللہ نے اپنے بندے کے کہنے کو سچ کیا اور عذاب کے بادل بھیج دئیے اور وہ آگ برسانے والے تھے۔ جب قوم نے دیکھا کہ عذاب کے بادل آگئے ہیں تو اکٹھی اللہ کے حضور سجدے میں گر گئی اور رو رو کر معافی مانگنے لگی ، انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ کے عذاب کے بادل آئے ہوئے واپس چلے گئے تھے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے کہ
ترجمہ: ”یہ اللہ کا اصول نہیں کہ کوئی قوم توبہ و استغفار کرے اور اللہ اس پر عذاب بھیجے۔

“(القرآن)
اس وقت پوری دنیا کو کورونا کے عذاب نے لپیٹ میں لیا ہو اہے۔ ہم جہاں پر احتیاط کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں وہاں ہمیں اللہ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ اللہ پاک بہت غفور الرحیم ہے وہ ہمیں معاف کردے گا۔
جب بندہ کسی آزمائش یا سزا میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی عقل بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔

اس کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے۔ یہی حالت ہمارے مسلمانوں کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قدر طوفان برپا ہے کہ کورونا ویکسین یہودیوں کی سازش ہے اس میں آدمی کے جسم میں چپ ڈال دی جاتی ہے۔ جو بندے کو کنٹرول کرتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی کئی لغویات آپ سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ بیماری اور شفا دونوں اللہ پاک کی جانب سے ہوتی ہے۔

اگرہم فکر آخرت کے ساتھ اس کا سامنا کرتے ہیں تو اللہ پاک دونوں جہانوں کی نعمتیں عطافر ماتا ہے۔انسان کو اللہ نے بار بار صبر کی تلقین کی ہے اور اگر صبر کے ساتھ مصیبت کا مقابلہ کرتا ہے تو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اس بارے میں فرمایا گیا ہے:
ترجمہ: ”اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“(سورة البقرہ 153)
مسلمان نے کسی بھی بیماری کا علاج کرایا تو اس نے رسول اللہﷺ کے حکم اور سنت پر عمل کیا۔

اور کوئی بھی عمل اتباع سنت کی نیت سے علاج کیا جائے تو باعث اجر و ثواب بھی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بندہ کو شفا اور تندرستی عطا فرمائے تو بندہ اللہ کا شکر ادا کرنے اور شکر بھی صبر کے ہم پلہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا”ایک شخص روزہ رکھے اور بھو ک وپیاس میں صبر کرے دوسرا شخص کھائے پیئے اور اللہ کا شکر ادا کرے دونوں کا عمل برابر ہے“(سنن الداری کتاب الاطعمتہ 2068)
اسلام سے پہلے مذہبی گروہوں نے اپنے خیال کے مطابق اللہ کے قرب کے لئے رہبانیت کا راستہ اختیار کیا۔

بعض لوگ غسل نہیں کرتے تھے۔ بعض خوشبو نہیں لگاتے تھے ۔ بعض کانٹوں پر چل کر اپنے آپ کو لہولہان کر دیتے تھے۔ کچھ لوگ بھوکے پیاسے رہتے ،کچھ لباس سے آزاد ہو جاتے اور ننگے بدن گھومتے یہاں تک کہ یورپ میں کلیسا کے مذہبی رہنماؤں نے علاج کو بددینی قرار دیدیا۔ ان کاخیال تھا کہ انسان اللہ کے حکم سے بیمار پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر بیماری کا علاج کرایا جائے تو یہ منشائے ربانی کے خلاف ہوگا۔

لیکن اسلام دین فطرت ہے۔اس نے رہبانیت کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ (شرح السنتہ للبغوی 484)باب فضل القعود فی المسجد الانتظار الصلوٰة)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیماری بھی اللہ نے پیدا کی ہے اور اس کی دوا بھی اللہ نے پیدا کی ہے۔ اس لئے علاج کرایا کرو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی 254/24)
علاج کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری پیدا ہو جائے اور اس کی دوا لی جائے ، دوسری صورت ہے کہ ابھی بیمار نہیں لیکن جسم کی اندرونی کیفیت ، ماحول اور قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کے لئے علاج کیا جائے کہ بندہ اس بیماری کا شکار بھی نہ ہو۔

ان تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر علاج کرنا جائز اور سنت کے مطابق ہے۔
کورونا ویکسین بنیادی طور پر علاج کی دوسری قسم میں شامل ہے، اگر کوئی شخص ویکسین میں مبتلا نہیں ہو ا لیکن وہ مرض سے بچاؤ کے لئے ویکسین لگوا لیتا ہے تو یہ بالکل جائز عمل ہے۔ اس طرح جیسے بچوں کو ٹی بی، تشنج ، خسرہ، پولیو، چیچک اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں یہ اسی زمرے میں آتا ہے۔


اب دوا کے اجزائے ترکیبی کی بات کی جائے تو بنیادی طور پر دوائیں چیزوں سے بنتی ہیں وہ نباتات، جمادات یعنی لوہا، چونا ، مٹی ، سونا ، چاندی اور پتھر وغیرہ ہوتے ہیں۔ نباتات زمین سے اگنے والے پودے اور جڑی بوٹیاں ، درختوں کی چھالیں، پتے ، پھول اور دیگر اشیا سے بنائی جاتی ہے۔ تیسری قسم حیوانات یعنی جانوروں کے بارے میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جس چیز کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے وہ استعمال نہ کریں۔

نباتات میں سوائے نشہ آور جزو کے تمام درخت پودے اور ان کے نکلنے والی چیزیں حلا ل ہیں۔ اور قدیم دور سے موجودہ دور تک زیادہ تر ادویات نباتات سے ہی بنائی جاتی ہیں۔ اگر کسی ویکسین میں ان دونوں چیزوں کا استعمال ہو تو جائز ہونا ظاہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ اگر انسان کی جان کو خطرہ ہے اور مردار کھانے سے اس کی جان بچ سکتی ہے تو اس صور ت میں وہ مردار بھی اس کے لئے کھانا جائز ہے۔

اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اصل مسئلہ حیوانات کا ہے۔ حیوانات میں بعض حلال ہیں اور بعض کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔جو حلال ہیں ان کے بعض اجزاء کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس طرح اگر جانور شرعی لحاظ سے ذبح نہ کیا جائے تب بھی وہ حرام ہے۔ اور مردار کے زمرے میں آتا ہے۔اب اگر شرعی طریقے سے حلا ل کئے گئے جانوروں کے حلال اجزاء جیسے گوشت ہڈیاں چمڑے سے دوائیں بنائی جاتی ہیں تو ان کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

لیکن اگر جانور حرام ہے یا حلال جانور کے حرام اجزاء ہیں یا شرعی طریقہ سے ہٹ کر جانور کو ذبح کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں اس کو کھانا یا استعمال کرنا حرام ہے۔ اور ان کو جسم میں کسی طریقے سے پہنچانا بالکل نا جائز ہے۔ لیکن اس سے دو صورتیں مستثنیٰ ہیں۔
ایک یہ کہ ان کے اجزاء سے اسطرح دوا بنائی جائے کہ اس کی حقیقت تبدیل ہو جائے تو اس پر حرام ہونے کا حکم باقی نہیں رہتا۔

کیونکہ شریعت کے احکامات کسی چیز کی موجودہ شکل کے بارے میں ہوتے ہیں جب شکل اور ہیئت بدل جائے تو احکامات بھی بدل جاتے ہیں۔ دو اہم تحقیقی فقہی اداروں اسلامک اکیڈمی آف انڈیا اور ادارة المباحث الفقہیہ (جمعیت علمائے ہند) نے اصحاب افتاء اور ماہرین کے مشورے سے فیصلہ کیا ہے کہ اگر حرام حیوانی اجزا ء ہوں اور ان میں کیمیکل اجزاء کے ذریعے ایسی تبدیلی کی جائے کہ اس کی ہیئت بدل جائے اور وہ انسا ن کے لئے فائدہ مند ہوں یعنی بیماری میں فائدہ دیں تو ان کا استعمال جائز ہے۔

دوسری طرف اگر حقیقت ماہیت تبدیل نہ ہو لیکن علاج کے لئے ماہر طبیبوں کی تحقیق کے مطابق اس کا استعمال ضروری ہے تو تب بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ خود قرآن پاک میں جان بچانے کے لئے حرام چیز کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔(سورة البقرہ 173)
اگر ان تفصیلات کو مدنظر رکھا جائے تو کورونا ویکسین کے مسئلے پر غور کیا جائے تو اس میں حرام اجزا ء کا شامل ہو نا پایہٴ تحقیق کو نہیں پہنچا اور ایسی کوئی حرام چیز کا استعمال ابھی تک علم میں نہیں آیا کہ جس کو رب نے منع فرمایا ہو یہ صر ف اورصرف جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ۔

سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی باتیں آرہی ہیں لیکن کسی بھی فارمیسی کمپنی نے اس کی کوئی تصدیق نہیں کی۔ اور کسی لیبارٹری نے اس کا تجزیہ کر کے تجزیاتی رپورٹ شائع نہیں کی۔جس سے کسی قسم کے غلط اجزا ء کی تصدیق ہو سکے۔ اس لئے صرف شک و شبہ کی بنیاد پر استعمال کو ناجائز قرار دینا بالکل غلط اور اسلام میں بہتان کے زمرے میں آتا ہے جو گناہ کبیرہ میں سے ہے۔

اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری جانب کورونا ویکسین کی شکل اخبارات اور سوشل میڈیا پر آرہی ہے وہ ایک عرق کی صورت ہے بظاہر اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ اس لئے اگر اس کی وجہ سے کسی انسان کی زندگی بچ سکتی ہے یا اس کی صلاحیتوں پر منفی اثرات نہیں پڑتے تو اس کا استعمال شرعاً جائز ہے۔

اس کا فیصلہ طبی ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔باقی یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ لاکھوں آدمی کے استعمال میں دو چار آدمی اسکے منفی اثرات سے دوچار ہوئے ہیں تو یہ ویکسین کے استعمال کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ بعض اوقات ان کا ری ایکشن بھی ہوتا ہے۔اور بہت سی اموات ہو جاتی ہیں بہرکیف علاج ایک تدبیر ہے۔اور تدبیر کوئی بھی ہو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔

اس لئے ہمیں علاج کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے ۔ سچے دل سے توبہ کر کے اس کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش کریں ۔ اجتماعی یا انفرادی طور پر اللہ سے معافی اور توبہ استغفار کا اہتما م کرنا چاہیے۔ ویسے بھی بابرکت مہینہ چل رہا ہے۔ اس میں اللہ کی رحمتیں اور بخشش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آئیں مل کر اللہ پاک سے اپنے تمام گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اس سے معافی مانگیں تا کہ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو کورونا جیسے عذاب سے نجات عطا فرمائے اور ہر انسان کو اس سے محفوظ فرمائے۔(آمین ثم آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :