چینی سکینڈل اور تبدیلی سرکار

جمعرات 29 اپریل 2021

Khalil Ur Rehman Alvi

خلیل الرحمن علوی

پاکستان کے عوام نت نئی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ملک میں کبھی وبائی امراض پھوٹتے ہیں تو کبھی اشیائے خوردونوش کے بحرانوں نے سراٹھایا۔ تبدیلی سرکار نے جب اقتدار سنبھالا تو وزیراعظم عمران خان نے قوم سے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے بھیک نہیں مانگیں گے اپنے وسائل پر گزارہ کریں گے لیکن یہ بیان بنایا گیا کہ پہلے قرضوں کی قسطیں اتارنے کے لئے ہمیں اور زیادہ قرضہ لینا پڑا رہا ہے۔

ابھی حکومت سنبھال ہی رہے تھے کہ اشیائے خوردونوش کے بحرانوں نے سراٹھانا شروع کردئیے ۔ چینی پہلے پہل مارکیٹ میں غائب ہوئی اور پھر نایاب ہو گئی۔ جب تبدیلی سرکار نے حکومت سنبھالی تو اس وقت 58سے 60روپے فی کلو گرام تک عام دکانوں پر چینی فروخت ہوتی تھی مگر پھر کیا ہوا چینی کی قیمتوں کوجیسے پر لگ گئے اور اڑھائی سالوں میں دوگنا قیمت ہو گئی۔

(جاری ہے)

اب یہ عالم ہے کہ 120روپے کلو بھی چینی نہیں مل رہی ۔ حکومت نے مافیا کو لگام ڈالنے کی بجائے غریب اور چھوٹے دکانداروں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں ہیں اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس گلی محلوں میں چھاپے مارنے تک محدود ہو گئے ہیں۔ دو کلو چینی کیلئے عام آدمی کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑا رہتا ہے ۔کئی علاقوں میں تویوٹیلٹی سٹور پر صبح سویرے ہی لائنیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے چینی کے بحران کا نوٹس لیا۔ کمیٹی بنی لیکن اس میں ملوث افراد کا آج تک کچھ نہیں بن سکا۔فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی سکینڈل میں ترین، زرداری، شریف خاندانوں سمیت 6بڑے گروپس شامل ہیں۔ اور انہی خاندانوں نے اپنی فیکٹریوں میں چینی سٹاک کر کے مصنوعی بحران پیدا کیا اور راتوں رات اربوں روپے کما لئے۔رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران پانچ ارب کلو گرام چینی استعمال ہو ئی۔

اور مافیا نے ذخیرہ اندوزی کر کے 110ارب روپے کا قوم کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا۔
اب موجودہ ملکی حالات یہ ہیں کہ دو کلوگرام سے زیادہ چینی یوٹیلٹی سٹور پر نہیں مل رہی۔ اس حوالے سے گزشتہ روز چھوٹے دکانداروں سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بلیک میں چینی 55سو روپے کی 50کلوگرام کی بوری یعنی 110روپے کلو ہول سیل مارکیٹ میں مل رہی ہے۔حکومت ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ ہم 85روپے کلو گرام فروخت کریں۔

ہم غریب لوگ ہیں ہم اس طرح اپنا نقصان کیسے کریں۔ دوسری جانب کمشنر ملتان جاوید اختر محمود نے اجلاس میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو گلی محلوں میں چھاپے مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں ابھی کارروائیاں شروع بھی نہیں ہوئیں کہ چینی مارکیٹ سے بالکل ہی غائب ہو گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف فیکٹریوں کے مالکان ہیں جن پر نیب میں کیس بھی چل رہے ہیں اور دوسری جانب غریب دکاندار۔

اگر انتظامیہ اور حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنا اور چینی کا بحران پر قابو پانا چاہتی ہے تو بڑے مگر مچھوں کو لگام ڈالے جن کی وجہ سے قوم مسائل سے دوچار ہو رہی ہے۔ ان چھوٹے اور غریب دکانداروں کو نہیں ۔ وزیراعظم ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں انہیں سفید کپڑوں میں چھپے چینی چور نظر آجائیں گے۔
نیب نے گزشتہ روز شوگر سکینڈل میں ملک کی دو اہم شخصیات صوبائی وزیر انڈسٹریز اینڈ کامرس میاں اسلم اقبال اور سابق صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔

دونوں شخصیات پر منی لانڈرنگ کے تحت مقدمات چل رہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس بات کا علم نہیں کہ مافیا میں اصل چہرے کون کون سے ہیں؟ ان کی کیا مجبوری ہے۔ جو ایسے افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دے رہی ۔ جہانگیر ترین کے بارے میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ وزیر اعظم ان کے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ کیا اس طرح کی کوئی مجبوریاں ہیں جو وزیراعظم کو ایسے مافیا کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتی ہیں۔

دوسری جانب چینی بحران کی تحقیقات میں اہم پیشرفت ہوئی ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شوگر ملزمالکان چینی بنانے کے ساتھ ساتھ گنے سے بننے والی دیگر پراڈکٹس سے اربوں روپے کمارہے ہیں۔ اسی طرح شوگر ملز مالکان نے بگاس،پوگ، شیرا اور گار سے بھی اربوں روپے کما لیتے ہیں۔جبکہ ٹیکس چوری کے اربوں روپے اس کے علاوہ ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن رپورٹ میں واضح ہوتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسانوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بات کرتے تھے جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے ، یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کے جے ڈی ڈبلیو ملز پاکستان میں چینی کی پیداوار کا سب سے بڑا گروپ ہے اور یہ کہ انہوں نے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت بڑھائی اور پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے اس گروپ کے قانون کی خلاف ورزی کر کے تقریباً آٹھ نو ملز کا اضافہ کیا۔

انہوں نے مزید بتا یا کہ شوگر کی پرو کیورمنٹ سے لے کر شوگر برآمدات تک سب چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹویٹ میں کہا کہ ”جس قسم کے جھوٹے الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں ان کا سن کر دھچکا لگا ہے۔ میں نے ہمیشہ صاف شفاف کاروبار کیا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کاشتکار کو پوری قیمت دی ہے ۔

میں دو کھاتے نہیں رکھتا۔“
انہوں نے کہا کہ ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہر الزام کا جواب دیں گے۔
ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ن لیگ ردعمل دے گی۔ ق لیگ کے رہنما مونس الٰہی نے کہا ہے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا منیجمنٹ میں شامل نہیں ہوں کمیشن کی قانون ساز ی کے لئے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں، رپورٹ میں کئی پردہ نشینوں کے نام سامنے آئے ہیں۔

جن پر ردعمل سامنے نہیں آیا۔
شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ گنے پیدا کرنے والے کسان کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔ شوگرملز مالکان انتہائی کم قیمت میں گنا خریدتے ہیں ۔ ملز مالکان نے جس وقت 140روپے من سے کم قیمت پر گنا خریدا اس وقت سپورٹ پرائس 190روپے تھی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق ملز مالکان نے پیداواری قیمت بڑھائی اور آڈٹ کے مطابق چینی کی فی کلو قیمت اوسطاً 13روپے فی کلو گرام کا فرق آیا۔

ان کے مطابق کمیشن کا کہنا ہے کہ 2018میں ملز کی طرف سے 52روپے چھ پیسے قیمت رکھی گئی جبکہ یہ 40روپے چھ پیسے بنتی تھی۔
شہزاد اکبر نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملز مالکان نے 2019-20میں یہ قیمت 62روپے مقرر کی جبکہ کمیشن کے مطابق یہ قیمت 46روپے 4پیسے بنتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے مطابق گنا کم قیمت پر خرید کر کاغذات میں زیادہ قیمت لکھی جاتی ہے ۔

ملز اپنے نقصانات کو بھی پیداواری قیمت میں شامل کر دیتی ہیں۔ جبکہ شوگرملز مالکان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال پیداواری قیمت میں 12روپے سے 13روپے کا فرق نظر آرہا ہے۔ چینی بحران پیدا کرنے کے لئے دانستہ ہیرا پھیری کی گئی۔ جس کا فائدہ ملز مالکان اور نقصان عوام کو ہوا۔
مارکیٹ میں ڈیلیوری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جوئے کی وجہ سے کاروباری حضرات کو نقصان ہوا۔

کمیشن نہ بنتا تو ابھی قیمتیں اور زیادہ بڑھ جائیں۔
رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چار سے پانچ فیصد گنا بھی گڑ کے لئے رکھ دیں تو باقی 25فیصد مقدار کہاں گئی۔ اس کے بارے میں آج تک کچھ پتہ نہیں۔ 1.7ملین ٹن چینی رپورٹ ہی نہیں کی گئی۔ مل مالکان نے دو دو کھاتے رکھے ہوئے ہیں ایک وہ جو اداروں کو دکھانے کے لئے ہے اور دوسرا وہ جو سیٹھ کے لئے ہے جس میں بتایاجاتا ہے کہ اصل میں کتنا فائدہ ہوا ہے۔

کمیشن رپورٹ میں بتایاگیا کہ بے نامی اکاؤنٹس میں بھی ٹرانزیکشن ہوتی ہے۔ جو ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ جبکہ ملز مالکان نہ ہی روڈز ڈویلپمنٹ اور نا ہی سیلز ٹیکس دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تمام ملز نے کرشنگ کی صلاحیت کو بڑھایا ۔ پہلے اس کی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔مختلف ملزنے 10ہزار سے لیکر 65ہزار تک پیداواری صلاحیت بڑھائی۔

یعنی آٹھ نو ملز بغیر اجازت کے لگائی گئیں۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سند ھ کے وزیراعلیٰ نے اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے 9.3ارب روپے کی سبسڈی دی۔ اور گزشتہ 5سالوں میں 29ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ۔ اس عرصے میں مالکان نے 52ارب روپے کا ٹیکس دیا۔ جن میں سے 29ارب روپے سبسڈی نکل گئی ۔اور 12ارب روپے ری فنڈ ہوئے کل انکم ٹیکس صرف 10ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوا۔


تحقیقاتی کمیشن کے مطابق اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے کمیشن کے سامنے بیان دیا کہ ملک کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت تھی اس لئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں چینی کی وافر مقدار موجود تھی۔ کوئی بحران نہیں تھا۔ ان کے مطابق کرشنگ سیزن شروع ہونے والا تھا۔ اس وجہ سے قلت کا کوئی ڈر نہیں تھا اور یہ کہ 2019میں چینی کی قیمتوں کے اضافے کو برآمدات سے نہ جوڑا جائے ۔

اسد عمر نے کمیشن کے سوال کے جواب میں کہا کہ چینی کے سٹاک اور ذخیرے کے متعلق صوبائی حکومتوں نے اعدادوشمار بھیجی تھیں۔ اور یہ کوئی وجہ نہیں کہ وفاق صوبائی حکومتوں کے اعداد وشمار پر اعتبار نہ کرے۔
صوبوں کو سبسڈی دینے کے اختیار کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ غیر رسمی طور پر اس پر بات ہوئی تھی ۔ 18ویں ترمیم کے بعد یہ سب کچھ صوبوں کے اختیار میں ہے۔

تو اس وجہ سے سبسڈی کا معاملہ صوبوں پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر ملز اس وقت اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں۔ مسابقتی کمیشن اس کارٹلائیزیشن کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ کچھ ملز کا فرانزک آڈٹ کیا گیا ہے۔ چھ بڑے گروپس جو 51فیصد چینی پیدا کرتے ہیں ان کی ملوں کے نمونے لیکر فرانزک آڈٹ کیا گیا ہے۔


ان کے مطابق ان ملز میں سب سے زیادہ حصہ یعنی 20فیصد جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز گروپ کا ہے۔ اس میں ہونے والی خلاف ورزیوں کے حوالے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا جائے گا۔
اور وزیر اعظم اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے کہ اس مافیا کے خلاف کون سا ادارہ کارروائی کرے۔ کمیشن رپورٹ کے مطابق اس وقت حکومتی ادارے مل مالکان کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔


چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے شوگر ملز مالکان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ۔ صرف پیداوار سے ہی یہ لوگ کمائی نہیں کر رہے بلکہ سرمایہ داروں نے مختلف بنکوں سے قرضے لے رکھے ہیں۔اورحکومت سے بھی اربوں روپے سبسڈی کے نام پر ہڑپ کر جاتے ہیں۔شوگر ملز مالکان کسانوں کا استحصال کرتے ہوئے ان سے اونے پونے داموں میں گنا خرید کرتے ہیں اور انہیں کئی کئی سال ادائیگیاں نہیں کرتے۔


ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق چینی بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے جے ڈبلیو ڈی گروپ نے اٹھایا ۔ 56کروڑ سبسڈی حاصل کی ۔ دوسرے نمبر پر خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر ملز نے 45کروڑ روپے تیسرے نمبر پر آل میوز گروپ نے 40کروڑ روپے سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق پانچ سالوں میں دی جانیوالی سبسڈی جے ڈبلیو ڈی گروپ نے 3ارب روپے ہنزہ گروپ نے 2.8ارب روپے، فاطمہ گروپ نے 2.3ارب روپے ی سبسڈی حاصل کی۔

اسی طرح شریف گروپ نے 1.4اور اومنی گروپ نے 2.3ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپورٹ میں چینی کی برآمد کا فیصلہ غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چینی برآمد کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ چینی برآمد کرنے والوں نے سبسڈی کی رقم بھی حاصل کی ہے۔ چینی کی قیمتوں کے بڑھنے میں کئی مافیا اور گروپ شامل ہیں۔ بہر کیف رپورٹ تو وزیراعظم کو ارسال کر دی جائے گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی یا یہ رپورٹ بھی سابقہ ہزاروں رپورٹوں کی طرح فائلوں میں دفن ہو جائے گی اور عوام دو دو کلو چینی کے لئے قطاروں میں لگے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :