"شریف خاندان کا عروج و زوال''

جمعرات 21 جنوری 2021

 Malik Faiz Ul Hassan Khokhar

ملک فیض الحسن کھوکھر

میاں محمد شریف 1919ء میں مشرقی پنجاب کے گاؤں امرتسر میں ایک غریب افلاس زدہ اور مفلوک الحال گھرانے میاں محمد بخش کے ہاں پیدا ہوۓ۔خاندان کافی بڑا تھا وسائل نہ ہونے کے برابر تھے پورا خاندان مفلسی کی زندگی گزار رہاتھا۔ تین بڑے بھائی  محنت مزدوری کی غرض سے اپنا آبائی گاؤں چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئے۔میاں شریف کے بڑے بھائی محنتی اور جفاکش تھے جلد ہی ان کو ایک بھٹیّ میں مزدوری مل گئی کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنے تین چھوٹے بھائیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا ان میں دو مزدوری کرنے لگ گئے چھوٹے بھائی میاں شریف  کو پڑھنے کا شوق تھا۔

وہ ایک ہائی سکول میں چھٹی کلاس میں داخل ہو گیا اس کے پاس فیس کے پیسے نہ تھے اس نے کنسیشن فی اپلیکیشن دی جو اسیپٹ کر لی گئی۔

(جاری ہے)

اس طرح سے ان کے خاندان سے اس کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ کم ہو گیا تاہم اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری بھی کرنا شروع کر دی۔عام نمبروں سے میٹرک پاس کر کے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کےلیے اس نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں فرسٹ ائر میں داخلہ لیا۔

دن کو کالج جاتا شام ٹائم فیکٹری میں مزدوری کرنے چلا جاتا تاکہ اپنے کالج کے expenses پورے کر سکے۔ اسے 14 آنے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی اس کے اوپر ہر وقت آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جنون طاری رہتا تھا۔کچھ عرصہ
 بعد مائنڈ میں خیال آیا کہ کیوں نہ ہو میں اپنا بزنس شروع کروں اس نے ملازمت کو خیرباد کہ دیا۔چناچہ انھوں نے 1939ء میں اپنی بھٹیّ لگانے کا سوچا گزشتہ چھ برس میں سارے بھائی 310 روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

میاں شریف کے مشورے سے انھوں نے 310روپے میں ایک فاؤنڈری خریدی۔پانچ بھائی اپنی فاؤنڈری میں کام کرنے لگ گئے میاں شریف نہ صرف بزنس کا حساب کتاب اور منصوبہ بندی کرتے بلکہ ساتھ  سارا دن ہتھوڑے کے ساتھ ٹیڑھے سریے بھی سیدھے کرتے۔معیاری کام کرنے کی وجہ سے اچھا خاصہ کمانے لگے 1955ء میں شریف خاندان نے کوٹ لکھپت میں اتفاق فاؤنڈری قائم کی۔1960ء میں فاؤنڈری میں توسیع کی گئی۔

اعلیٰ معیار اور ایمانداری کی وجہ سے قلیل عرصے میں ملک کے کامیاب اور معروف صنعت کار بن گئے۔ان دنوں پاکستان میں شہرت یافتہ دو اسٹیل ملیں تھی ایک میاں شریف اور دوسری سی۔ایم لطیف کی تھی۔1971ء کے الیکشن میں میاں شریف نے  بھٹو کی مخالفت کی جس کی وجہ سے 1972ء میں بھٹو نے فاؤنڈری کو قومی تحویل میں لے لیا۔اس وقت خاندان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ نقدی نہ تھے میاں شریف نے شکست تسلیم نہ کی ایک بار پھر کپڑے چھاڑ کر کاروبار کو منظم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔

ڈیڑھ سال کے نہایت ہی قلیل عرصے میں انھوں نے چھ کارخانے قائم کیے۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں میاں شریف کے بیٹے نواز شریف نے سیاست میں قدم رکھا۔1981ء میں آمر جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت کے مرہون منت وزیر خزانہ منتخب ہوۓ۔ 1985ء میں غیر جماعت انتخابات کے بعد صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔1988ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ابھرنے والی پاڑتی کے ساتھ انھیں وفاق میں تو حکومت نہ مل سکی لیکن ایک بار پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔

ضیاء کے لڈلے نے بالآخر 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سر برائی کی اور فاتح بن کر ملک کے وزیراعظم منتخب ہوۓ۔ بعد میں یہ الزام لگایا گیا کہ پاکستان کی کچھ قوتوں نے نوازشریف کے حق میں انتخابی عمل میں لاکھوں روپے کی رشوت سیاست دانوں میں تقسیم کی تو اس بدعنوانی کے تحت اور تعلقات آپس میں ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے  اپریل 1993ء میں صدر اسحاق خان نے آئین کی شق B_2_58 کا سہارا لے کر نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔

مسلم لیگ نے صدر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی منصف اعلیٰ جسٹس نسیم حسن شاہ نے صدر کے احکامات مسترد کرتے ہوۓ نواز حکومت کو بحال کر دیا لیکن پھر بھی نوازشریف زیادہ عرصہ منصب پر فائز نہ رہ سکے بالآخر مستعفی ہوگئے۔دوسری مرتبہ پھر 1997ء میں ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔جنرل مشرف کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ آپ کو منصب سے ہاتھ دھونے پڑے۔

طیارہ اغوا کیس میں خصوصی عدالت نے نواز شریف کو کسی بھی پبلک عہدے کےلیے نااہل قرار دیتے ہوئے جرمانے اور قید کی سزا سنائی پھر سعودی حکومت کی مداخلت پر جلا وطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی۔لیکن پھر بھی اپنے باپ کی طرح ہمت نہ ہاری مسلسل مشکلات کے باوجود بھی سیاست کو خیرباد نہ کہا۔جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد آپ پھر پاکستان واپس آۓ تو تیسری مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم 2013ء میں منتخب ہوۓ۔

2017ء میں ایک بار پھر وزرات عظمٰی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ نواز شریف کی جب کوشش رنگ نہ لائی تو اس نے اداروں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا شریف خاندان کو ایک بار پھر تاریخ انصاف کی حکومت میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔شہباز شریف اور ان کے بیٹے بھی زندان میں ہیں مریم نواز جارحانہ انداز میں سیاست کر رہی ہیں جس کی وجہ سے شریف خاندان کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اگر نواز شریف اپنے بابا کی طرح ایمانداری کا مظاہرہ کرتے سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی فلاح و بہبود کےلیے کام کرتے تو نواز شریف پاکستانی عوام کےلیے مسیحا ثابت ہو سکتے تھے ان کے دور حکومت میں بظاہر تو عوام کو ریلیف دیا گیا لیکن ساتھ ہی ملک کو بےدردی سے لوٹا گیا لیکن حکومت کی گرفت مافیا پر مضبوط تھی۔ شہباز شریف کو بھی نوازشریف کی وجہ سے مشکلات کا سامنا درپیش ہے اگر نواز کے بیانیے کے پیچھے کھڑے نہ ہوتے تو آج قید کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے ۔

مریم نواز کو تو مستقبل میں قوم کا لیڈر بن کر ابھرنا ہے تو انھیں چاہیے جلسے جلوسوں میں عوام کو سہانے خواب دیکھئے نہ کہ اپنے بابا کے بیانیے کو لے کر چلے۔بقول حکومت قومی مجرم نواز شریف نے ملک کو بےدردی سے لوٹا لیکن وہی نوازشریف چپکے سے ملک کے قانون کو کالا کر کے باہر چلے گئے یہ اداروں کے اوپر طمانچہ ہے۔ شریف خاندان کئی بار پہلے بھی زوال پذیر رہا ایک بار پھر اسی طرح کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔میرے دیکھنے میں ابھی بھی شریف خاندان کی مشکلات دور ہوتی نظر نہیں آرہی۔شریف برادران کو ایک ہی شخص کی صورت میں ریلیف مل سکتا ہے وہ ہیں شہباز شریف صاحب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :