کیا مسلم لیگ ن ایک پیج پر ہے؟

جمعہ 18 دسمبر 2020

Malik Sajjad Samtia

ملک سجاد سامٹیہ

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست ہو یا کسی بھی ملک کی سیاست ۔اس میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس میں ہمیشہ گہما گہمی لگی رہتی ہے۔کبھی حالات قابلِ  ستائش  ہوتے ہیں تو کبھی سیاسی درجہ حرارت بلند ہوتا نظر آتا ہے اور یہی سیاست کا حسن ہے۔ایسے ہی کچھ آج کل حالات پاکستانی سیاست کے ہیں۔ اس میں بھی آئے روزسیاسی  درجہ حرارت بلند ہوتا جا رہا  ہے۔

لیکن اس میں کئی دنوں یا کئی مہینوں سے اس میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔یہ اس وقت ہوا جب سے  پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا قیام  عمل میں آیا ہے۔یہ دراصل 11 جماعتوں کا مجموعہ ہے۔جس میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی سمیت دوسری کئی چھوٹی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔سب اس بات پر اتفاق کرتے  ہیں کہ عمران خان کو استعفی دینا چاہیے اور نئے الیکشن کروانے چاہیے۔

(جاری ہے)

اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اتحاد کے اندر کتنی خلفشار موجود ہے۔اگر ہم صرف پی ایم ایل این کی بات کریں تو یہ ہمیں دو حصوں میں بکھری ہوئی دیکھائی دیتی ہے۔
اس کی وجہ نواز شریف کی ملک میں عدم موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔کیونکہ وہ علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں اور پارٹی کی قیادت مریم نواز صاحبہ کے ہاتھ  میں ہے۔جیسا کہ ان کی قیادت کو دیکھا جائے تو مریم نواز صاحبہ کافی زیادہ جارحانہ  بیٹنگ کر رہی ہیں۔

انھوں نے جب بھی خطاب کیا ہے عمران کے ساتھ ساتھ  پاکستانی آرمی چیف باجوہ صاحب پر زبانی وار کیے ہیں۔ جس سے ان کی ساخت کو کافی نقصان ہوا ہے۔اس کے علاوہ ان کے والد بھی بیرونِ ملک سے آرمی چیف صاحب پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ جبکہ اگر مسلم لیگ نواز کی دوسری بڑی شخصیت شہباز شریف صاحب ہیں جو مسلسل نیب کے کیسز کی زد میں ہیں اور ابھی بھی وہ اور ان کے بڑےصاحب زادے حمزہ بھی جیل میں ہیں۔

شہباز شریف کی جانب سے حکومت کی پالیسز پر تنقید تو دیکھی جاسکتی ہے لیکن وہ پاکستان کے سکیورٹی  اداروں پر زبانی حملے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ شہباز مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
اب اگر ان دونوں شخصیات کا موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان دونوں میں واضح تضاد ہے۔مریم نواز ابھی نئی سیاسی انیگز کا آغاز کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ موجود سینئر سیاست دان  ان کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال ایاز صادق صاحب کی ہے انھوں نے بھی کئی نامور سیاستدانوں اور افواجِ پاکستان کے لیڈر کے خلاف زبان قومی اسمبلی میں کی تھی۔جس کو موضع بنا کے انڈین میڈیا نے خوب جگ ہنسائی کی تھی۔اور رانا ثنااللہ صاحب جیسے لیگی راہنما مریم نواز اورنواز شریف کی حکمتِ عملی کی تایئد کر رہے ہیں جس کا اظہار وہ کئی بار برملا کر چکے ہیں۔
لیکن کئی تجزیہ نگار اور بشمول میں خود شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کا اچھا گردانتا ہوں کیونکہ یہ پاکستانی سیاست کےلیے موضع ہے اور حلات بجی اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں۔

مریم نواز کی پالیسی اپنے پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔جس سے کسی طرح لانگ ٹرم فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔اس لیے عام عوام اور لیگی اراکین کو ان دونوں میں مناسب پالیسی کی تایئد کرنی چاہیے جو اس ارضِ پاکستان کے لیے فائدے مند ہو نہ کہ وہ جو ملک میں انتشار اور نقصان کا باعث بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :