حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاعدل و انصاف

منگل 22 جون 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل وامین تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غنائمِ حنین تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ راَس الخوارج نے کہا۔یا رسول اللہ ! عدل کیجیۓ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“تُجھ پر افسوس۔ میں اگر عدل نہ کروں تو اور کون کریگا۔اگر میں عادل نہیں تو تُو نا امیدو زیاں کار ہے” ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیاکہ مجھے اجازت دیجیۓ کہ میں اِسکی گردن اُڑا دوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے جانے دو۔ کیونکہ اس کے اصحاب ایسے ہیں کہ ان کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور انکے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے۔وہ دین سے یوں نکل جاتے ہیں جیسے تیر شکارمیں سے نکل جاتا ہے۔

(جاری ہے)


ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کچھ کھجوریں اُدھار لیں جب اس نے تقاضا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

“ آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔مہلت دیجیۓ کہ کچھ آجاۓ تو ادا کردوں۔” یہ سُن کر وہ بولا۔ “ آہ بے وفائی۔” اس بات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو غصہ آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔” عمر جانے دو۔ صاحبِ حق ایسا ویسا کہا کرتاہے”۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہ بنتِ حکیم انصاریہ سے کھجوریں منگوا کر اس کے حوالہ کیں۔


حضرت ابو حدرو اسلمی کا بیان ہے کہ مجھ پر ایک یہودی کا چار درہم قرض تھا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر کا ارادہ فرما رہے تھے۔ اس یہودی نے مجھ سے تقاضا کیامیں نے مُہلت مانگی۔تو وہ نہ مانااور مجھے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دو دفعہ فرمایا کہ اس کا حق ادا کردو۔

میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مہم خیبر کا ارادہ فرما رہے ہیں ۔ شاید ہمیں وہاں سے کچھ غنیمت ہاتھ لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا۔ کہ اس کا حق ادا کردو۔ یہ قاعدہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کے لیۓ تین بار فرمادیتے تو پھر کوئی عُذر نہ کیا جاتا۔ میرے پاس بدن پر ایک تہہ بند اور سر پر عمامہ تھا میں نے اس یہودی سے کہاکہ اس تہہ بند کو مجھ سے خرید لو۔

چنانچہ اُس نے چاردرہم میں خرید لیا۔میں نے عمامہ سر سے اُتار کر کمر سے لپیٹ لیا۔ایک خاتون میرے پاس سے گزری اُس نے اپنی چادر مجھے اوڑھا دی۔
سرق ایک صحابی تھے ان سے اس نام کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی تو کہنے لگے کہ ایک بدوی دو اُونٹ لےکر آیا۔میں نے خرید لیۓ۔پھر میں پیسے لانے کے بہانے سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور عقب خانہ سے نکل گیااور اُن اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت پوری کی ۔

میں نے خیال کیا کہ بدوی چلا گیا ہوگا۔ میں واپس آیاتو کیا دیکھتاہوں کہ وہ کھڑا ہے۔وہ مجھے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیااور سارا واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا۔یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت روائی کی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی کو قیمت ادا کردو۔

میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سرق ہے۔پھر بدوی سے فرمایا کہ تم اسکو بیچ کر اپنی قیمت وصول کر لو۔چنانچہ لوگ اس سے میری قیمت پوچھنے لگے۔وہ ان سے کہتا تھاکہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہتے تھے کہ ہم خرید کر اس کو آزاد کرناچاہتے ہیں ۔ یہ سُن کر بدوی نے کہا کہ میں تمھاری نسبت ثواب کا زیادہ مستحق و خواہاں ہوں۔

اور مجھ سے کہاکہ جاؤ۔ میں نے تمھیں آزاد کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کا یہ عالم تھاکہ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں امین مشہورتھے۔چنانچہ جب قریش خانہ کعبہ کو ازسرِ نو بنانے لگے اور وہ حجرِ اسود کی جگہ تک تیار ہوگیاتو قبائلِ قریش میں جھگڑا ہو گیا۔ ہر ایک قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجرِ اسود کواُٹھا کر ہم اس کی جگہ پر رکھیں گے۔

آخر یہ طے پایا کہ جو شخص کل صبح باب بنی شیبہ سے حرم میں پہلے داخل ہو وہ ثالث بنے۔ اتفاقاً اس دروازے سے جوپہلے داخل ہوۓ وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھتے ہی سب پکاراٹھے۔
 یہ امین ہیں ۔ ہم راضی ہیں۔ یہ محمد ہیں۔
جب انھوں نے آپ سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھاکر حجرِ اسود کو اس میں رکھا۔

پھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سردار کا انتخاب کرلیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر کو اُٹھائیں۔اس طرح جب وہ چادر مقامِ نصب کے برابر پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کواٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب فرمایا۔ اور وہ سب خوش ہوگئے۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبدن مبارک پر ایک جوڑا قطری موٹے کپڑےکاتھا ۔

جب آپ بیٹھتے تو وہ پسینہ سے بوجھل ہوجاتا۔ایک یہودی کے ہاں شام سےکپڑے آۓ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ہاتھ اس سے ایک جوڑاقرض منگوالیں۔جب آپ کا آدمی یہودی کے پاس پہنچاتو اس نے کہا۔” مَیں سمجھا۔مطلب یہ ہے کہ وہ میرا مال یا دام یوں ہی اُڑالیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُن کر فرمایا۔” اس نے جھوٹ کہا۔اسے معلوم ہے کہ میَں سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کرنے والا ہوں۔”
قریش کواگرچہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سےسخت عداوت تھی مگر باوجود اس کےاپنی جوکھم کی چیز آپ ہی کےپاس امانت رکھا کرتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :