حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شام کا پہلا سفر

پیر 28 جون 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرِ مبارک بارہ سال کی ہوئی تو ابو طالب حسبِ معمول قافلۂ قریش کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام کو جانے لگے ۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے لِپٹ گئے ۔ اس لیۓ انھوں نے آپ کو بھی اپنے ساتھ لے لیا ۔ جب قافلہ شہر بُصرٰے میں پہنچا تو وہاں بحیرا راہب نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر پہچان لیا ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔ “ یہ سارے جہان کا سردار ہے ۔ رب العالمین کا رسول ہے اللہ نے اس کو تمام جہانوں کے لیۓ رحمت بنا کر بھیجے گا “۔
قریشیوں نے پوچھا تجھے یہ کیونکر معلوم ہوا ۔ اس نے کہا کہ جس وقت تم گھاٹی سے چڑھے کوئی درخت اور پتھر باقی نہ رہا مگر سجدے میں گِر پڑا ۔

(جاری ہے)

درخت اور پتھر پیغمبر کے سوا کسی دوسرے شخص کو سجدہ نہیں کرتے ۔

اور میں انکو مُہرِ نبوت سے پہچانتا ہوں جو اِنکے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے پھر اُس راہب نے کھانا تیار کیا ۔ جب وہ ان کے پاس کھانا لایا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹوں کو چرانے میں مشغول تھے ۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بلا لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آۓ تو بادل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایا کیا ہوا تھا ۔

جب آپ قوم کے نزدیک آۓ تو ان کو درخت کے سایہ کی طرف آگے بڑھے ہوۓ پایا۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ کی طرف ہٹ آیا۔
پھر کہا ۔ “ تمھیں خدا کی قسم بتاؤ ان کا ولی کون ہے ؟ انھوں نے کہا ابو طالب ۔ پس اس نے ابو طالب سے بتاکید تمام کہا کہ ان کو مکہ واپس لےجاؤ۔ کیونکہ اگر تم آگے بڑھو گے تو ڈر ہے کہیں یہودی ان کو قتل کر دیں۔

لٰہذا ابو طالب ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس لے آۓ اور شہر بُصرٰے سے آگے نہ بڑھے ۔ اور اس راہب نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خشک روٹی اور زیتون کا تیل زادراہ دیا ۔
آغاز اسلام سے پہلے عرب میں جو لڑائیاں ان مہینوں میں پیش آتی تھیں جن میں لڑنا ناجائز تھا ، حروب فجار کہلاتی تھیں ۔ چوتھی یعنی اخیر حرب فجار میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی تھی ۔

اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر شاہ حیرہ ہر سال اپنا تجارتی مال بازار عکاظ میں فروخت ہونے کے لیۓ اشرافِ عرب میں سے کسی کو پناہ میں بھیجا کرتا تھا۔ اس دفعہ جو اس نے اونٹ لدوا کر تیار کیۓ ۔ اتفاقاً عرب کی ایک جماعت اس کے پاس حاضر تھی جن میں بنی کنانہ میں سے براض اور ہوازن میں سے عروہ رحال موجود تھا ۔ نعمان نے کہا ۔ ا س قافلہ کو کون پناہ دیگا ؟ براض بولا ۔

میں بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہوں ۔ نعمان نے کہا میں ایسا شخص چاہتا ہوں جو اہل نجدو تہامہ سے پناہ دے ۔ یہ سُن کر عروہ نے کہا ۔ میں اہلِ نجدو تہامہ سے پناہ دیتا ہوں ۔ براض نے کہا اے عروہ کیا تو بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہے ؟ عروہ نے کہا ۔ تمام مخلوق سے ۔پس عروہ اس قافلہ کے ساتھ نکلا ۔
براض بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا ۔ اور موقع پا کر عروہ کو ماہ حرام میں قتل کر ڈالا ۔

ہوازن نے قصاص میں براض کو قتل کرنے سے انکار کیا ۔ کیونکہ عروہ ہوازن کا سردار تھا ۔ وہ قریش کے کسی سردار کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ مگر قریش نے منظور نہ کیا ۔ اس لیۓ قریش و کنانہ اور ہوازن میں جنگ چِھڑ گئی ۔ کنانہ کا سپہ سالاراعظم حرب بن امیہ تھا ۔ جو ابو سفیان کا باپ اور حضرت امیر معاویہ کا دادا تھا ۔ اور ہوازن کا سپہ سالار اعظم مسعود بن معتب   ثقفی تھا ۔

لشکر کنانہ کے ایک پہلو پر عبداللہ بن جدعان اور دوسرے پر کریز بن ربیعہ اور قلب میں حرب بن امیہ تھا ۔ اس جنگ میں کئی لڑائیاں ہوئیں ۔ ان میں سے ایک میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساتھ لے گئے ۔ اس وقت آپکی عمرِ مبارک چودہ سال تھی ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود لڑائی نہیں کی ۔ بلکہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے ۔

جبکہ آخر میں فریقین میں صلح ہو گئی ۔
جب قریش حرب فجار سے واپس آۓ تو یہ واقعہ پیش  آیا کہ شہر زبید کا ایک شخص اپنا مال تجارت مکہ میں لایا جسے عاص بن وائل سہمی نے خرید لیا ۔ مگر قیمت نہ دی ۔ اس پر زبیدی نے اپنے احلاف عبدالدارومخزوم و جمح و سہم وعدی بن کعب سے مدد مانگی ۔ مگر ان سب نے مدد دینے سے انکار کیا ۔ پھر اس نے جبل ابوقبیس پر کھڑے ہوکر فریاد کی ۔

جسے قریش کعبہ میں سُن رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر بنو ہاشم زہرہ اور بنو اسد بن عبدالعزےٰ سب عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوۓ ۔ اور باہم عہد کیا کہ ہم ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کیا کرینگے ۔ اور مظالم واپس کرا دیا کریں گے ۔اس کے بعد وہ سب عاص بن وائل کے پاس گئے اور ان سے زبیدی کا مال واپس کرایا۔

اس معاہدہ کو حلف الفضول اس واسطے کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ اس معاہدہ کے مشابہ تھا جو قدیم زمانہ میں جرہم کے وقت مکہ میں بدیں مضمون ہوا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حق رسانی کیا کریں گے ۔ اور قوی سے ضعیف کا اور مقیم سے مسافر کا حق لے کر دیا کریں گے ۔ چونکہ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب کا نام فضل تھا جن میں سے فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ تھے ۔

اس لیۓ اس کو “ حلف الفضول “ سے موسوم کیا گیا ۔
اس معاہدہ قریش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں اُسے نہ توڑتا اور ایک روایت میں ہے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایسے معاہدے میں حاضر ہوا کہ اگر اس سے غیر حاضری پر مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں پسند نہ کرتا ۔ اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “ یا اٰل حلف الفضول “ کہہ کر پکارے تو میں مدد دینے کو حاضر ہوں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :