کرپشن ایک ناسور ہے !

جمعہ 9 اپریل 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

انسان نے اپنی ابتدا سے ہی گزر بسر کے لیے مختلف کام کرنا شروع کردیے۔ ان زمانوں میں انسان ہر فن مولا ہوا کرتا تھا۔ اپنی ضرورت کا  ہر کام خود ہی کرلیتا تھا۔ اس زمانے میں ضرورتیں بھی بہت محدود تھیں۔ جب انسان نے تھوڑی ترقی کی تو مختلف کاموں کو زیادہ رفتار سے سرانجام دینے کے لیے اوزاروں کا استعمال شروع کیا۔ شروع شروع میں تو ضرورت کا ہر اوزار خود ہی بنا لیتا لیکن جب زندگی کی رفتار تھوڑی تیز ہوی تو لوگوں نے آپس میں کام بانٹنا شروع کردیے۔

اور اس طرح مختلف پیشے وجود میں آے۔ اب کاریگر ۔ دکاندار۔ تاجر اور گاہک جیسی بہت سی اصطلاحیں سامنے آٸیں۔ پہلے تو تجارت کا کام اشیا کے بدلے اشیا کے ذریعے ہوتا رہا اور پھر یہ کام پیسے کے بدلے ہونے لگا۔
یہاں سے انسان کے اندر پیسے کی ہوس بیدار ہوی۔

(جاری ہے)

اور اس نے اپنی ضروریات بڑھانا شروع کیں۔ پھر وہ وقت آیا جب انسان نے سوچا کہ وہ جو کام کررہا ہے اس سے اس کی آمدن اتنی بڑھنی چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف لوازمات بھی حاصل کر سکے اور اپنا معیار زندگی بھی بلند کر سکے۔

اب جو پیسہ کمانے کی دوڑ شروع ہوی تو انسان نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر راستہ اختیار کرنا شروع کیا۔ اس نے ایمانداری سے کاروبار کرنے سے لے کر چوری چکاری۔ لوٹ مار اور حق تلفی جسے کام بھی شروع کر دیے۔ یہیں سے انسان کی زندگی میں وہ پیشے داخل ہوے جن کو اخلاقی۔ مزہبی۔ تہزیبی بلکہ ہر لحاظ سے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ تجارت جیسے قابل احترام پیشے سے ذخیرہ اندوزوں۔

ملاوٹ کرنے والوں۔ کم تولنے والوں۔ چور بازاری کرنے والوں اور ان جیسے بہت سے ناجاٸز کاروبار کرنے والے پیشہ وروں نے جنم لیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ان پیشوں کے ذریعے دولت کمانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اسی طرح چوری اور ڈکیتی کی صنعت نے جنم لیا اور اس میدان میں بھی جدید سے جدید طریقے استعمال ہونے لگے۔  آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو جہاں ہمیں چھوٹے چھوٹے چور اور ڈاکو ہتھیاروں کے بل پر لوٹ مار کرتے دکھای دیتے ہیں وہیں ہمیں ایسے بہت سے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو شرفا جیسے لبادے اوڑھے بڑے بڑے دفاتر کھول کر اپنے شیطانی ذہنوں کے مشورے سے لوٹ مار کے نت نیے طریقے اختیار کرتے ہیں اور اس ناجاٸز پیشے کو ذریعہ بنا کر بے تحاشہ دولت کما رہے ہیں۔

ان کے علاوہ ایسے ڈاکو  بھی نظر آتے ہیں کہ جو اس پیشے میں نچلے درجے سے ترقی کرتے کرتے اونچے مقامات تک پہنچ جاتے ہیں بلکہ بہت سے تو حکمرانی جیسے مناسب پر بھی فاٸز ہو جاتے ہیں۔ اور وہاں پہنچ کر اپنے اثرورسوخ یا ناجاٸز دولت کی مدد سے اپنے پچھلے گناہ دھلوا کر مہزب اور شریف شہری بن جاتے ہیں۔ گویا اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے حکمرانی جیسے مقدس کام کو بھی پیشہ بنا کر مال کماتے ہیں۔


اسی طرح سے عوام کی مزہبی کم علمی۔توہماتی سوچ اور ناسمجھی سے فاٸدہ اٹھا کر بہت سے لوگ نام نہاد پیری فقیری اور گداگری جیسے قبیح کاموں کو پیشے کے طور پر اپنا کر  سادہ لوح عوام کو لوٹتے ہیں۔ گداگری کا پیشہ ہمارے ملک میں اس طرح قدم جما چکا ہے گویا رگ رگ میں سما گیا ہو۔ اگر آج ہم اپنے ملک کی کرنسی تبدیل کریں اور یہ اعلان کریں کہ فلاں تاریخ تک پرانے نوٹ تبدیل نہ کراے تو یہ ردی کاغز بن جاٸیں گے تو یقین کریں کہ آپ کو اس میدان میں کروڑ پتی بلکہ ارب پتی گداگر بھی نظر آٸیں گے جو پھٹے پرانے کپڑوں کی آڑ میں اپنے کاروبار کو فروغ دیے ہوے ہیں۔

اب تو اس کاروبار نے باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جہاں میک اپ کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ اداکاری کے تمام رموز کو استعمال میں لا کر عوام کی جیبوں سے پیسے نکلواے جاتے ہیں۔ اور اب اس پیشے کو دوسرے لوگوں کی طرح خاندانی پیشہ بناتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ کاروبار ہے جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔


پیسہ کمانے کے لیے چند بااثر لوگوں نے سیاست کو بھی ایک پیشہ بنا رکھا ہے۔ اس پیشے سے منسلک بہت سے لوگ عوام کو سبز باغ دکھا کر اور اپنی چکڑی چپڑی باتوں میں الجھا کر لوگوں کے ووٹ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور پھر اپنی ذمہ داریاں فراموش کرکے مال بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اگر ذرا گہرای میں دیکھا جاے تو ایسے لوگوں کو کامیاب کرنے میں اس عام آدمی کا بہت بڑا ھاتھ ہے جو چھوٹے سے ذاتی اور وقتی مفاد کی خاطر ووٹ کی قیمتی پرچی ان لوگوں کو فروخت کردیتا ہے۔

اور پھر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آج بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اگرچہ قانونی اور جاٸز پیشہ اپناے ہوے ہیں تاہم انہوں نے ان پیشوں میں بھی بہت سی ترامیم کر کے غیرقانونی طریقوں سے پیسہ کمانے کے گر اپنا لیے ہیں۔ اور یہ سب اس لیے فروغ پا رہا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ان اداروں سے منسلک ہیں جو ذمہ دار ہیں قوانین کے نفاذ یا قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادینے کے، لیکن وہ لوگ اپنے پیشے کے تقاضوں کو بہ احسن پورا کرنے کی جانب توجہ دینے کی بجاے اپنا خزانہ بھرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوے ہیں۔

چیک اور بیلنس کے نظام کو کنٹرول کرنے والے جب نظام کے قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہیں لاتے تو ہر پیشے میں ہیرا پھیری عام ہو جاتی ہے۔ عرف عام میں اسی ہیرا پھیری کو کرپشن کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے لوگ اپنے اس عمل بد سے حاصل کی ہوی کمای کو اوپر کی آمدن قرار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کرپشن کے اس پیشے کو اپناتے ہوے کروڑوں کما رہے ہیں۔

  یہ لوگ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ آج اگر اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ کاروباری حلقوں میں ایک ریڑھی بان سے لے کر بڑی بڑی مل مالکان تک، سرکاری ملازمتوں میں ایک ناٸب قاصد سے لے کر اعلٰی عہدوں پر فاٸز بہت سے افسران تک، الغرض کہاں کہاں اس کرپشن کے مرض نے پنجے نہیں گاڑ رکھے۔ اور اب تو اس کاروبار نے شرافت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔

بہت سے شیطان صفت لوگ خدمت خلق کرنے کی خاطر ادارے بنا کر بیٹھے ہیں اور فلاحی کاموں کے نام پر چندہ اور گرانٹیں حاصل کر کے مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس میں کوی مبالغہ نہیں کہ آج ہمار معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے۔ اور گنتی کہ چند ایسے لوگوں کے سوا جن میں ایمان کی رمق سلامت ہے، ہر شخص موقع ملنے پر کرپشن کی بہتی گنگا میں ھاتھ دھو لیتا ہے۔ کرپشن کے اس بڑھتےہوے سیلاب کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جراٸم پر سزا دینے کا کوی خاص رواج نہیں۔

اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے حساب سے کرپشن کرتا ہے لیکن جب اس مرض کے منفی اثرات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے تو پھر یہی کرپشن کرنے والے اس بگاڑ کی ذمہ داری خود پر ڈالنے اور خود کو سدھارنے کی بجاے حکومت کی کارکردی میں کیڑے نکال کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور اس کے بعد پھر سے اسی قبیح کام میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
آج من حیث القوم ہم میں وہ احساس مفقود ہو گیا ہے کہ معاشرہ عام آدمی سے بنتا ہے اور حکمران بھی اسی معاشرے سے نکل کہ آتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کرپشن سے بھرپور معاشرہ کسی ایماندار حکمران کو جنم دے۔ آج ہمیں اپنی رگ رگ میں بسے اس کرپشن کے ناسور کو نوچ کر پھینک دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہی ایک واحد حل ہے ان تمام مساٸل کا جو ہمیں درپیش ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :