آخر کب تک۔۔۔۔!

پیر 28 دسمبر 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

وزیر اعظم نے چکوال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوۓ کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے این آر او مل جائے ان کو اگر کسی نے بھی این آر او دیا تو یہ ملک سے غداری ہوگی غداری بھی ایسی کہ دشمن بھی معاف نہیں کرے گا اس سے پہلے بھی وزیر اعظم متعدد بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ وہ کرسی چھوڑ دیں گے مگر این آر او نہیں دیں گے حکومت سنبھالنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب وزیر اعظم نے این آر او نہ دینے کی بات نہ کی ہو تبدیلی کے بعد این آر او ایک ایسا لفظ ہے جو حکومتی حلقوں کی جانب سے سب سے زیادہ دہرایا جاتا ہے وزیر اعظم سے لیکر کابینہ تک حکومتی ترجمانوں سے لیکر مشیروں تک سب کے سب صبح شام این آر او نہ دینے کا ورد کرتے رہتے ہیں جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے وہ این آر او لینا ہی نہیں چاہتے بلکہ حکومت مزاکرات کے لیے مختلف لوگوں کو بھیج کر خود ہم سے این آر او مانگ رہی ہے اور ہم اب حکومت کو این آر او نہیں دیں گے بلکہ اب حکومت کو گھر جانا ہوگا۔

(جاری ہے)


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی وہ کون سی شق ہے جس کے تحت کسی ملزم یا مجرم کو این آر او دے کر ریلیف دیا جاسکتا ہے ماضی میں بھی جنرل پرویز مشرف نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے زریعے قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت 1986 سے 1999 تک کے تمام سیاسی اور کرپشن کے مقدمات ختم کر دئے گئے مگر کسی بھی جمہوری حکومت میں اس کی مثال نہیں ملتی ایسی صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان آئین کے تحت کسی کو این آر او دے بھی سکتے ہیں یا نہیں ؟ یا پھر ان پر این آر او دینے کے حوالے سے کوئی دباؤ ہے یا ویسے ہی وہ این آر او نہ دینے کی بات کر کے اپوزیشن کو ڈراتے اور خود کو بہلاتے رہتے ہیں۔

۔؟ یہ نا تو عوام کا مسئلہ ہے اور نا ہی عوام کا مطالبہ یہ بات بجا ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو ایک نئے پاکستان کے وعدے کی بنیاد پر کامیاب کرایا تھا جس میں کرپشن لوٹ مار کا خاتمہ ، غیر جانبدارانہ احتساب ، مہنگائی سے نجات ، روزگار کی فراہمی ، سماجی مساوات، حقوق کا تحفظ اور عام لوگوں کو ریلیف دینے کے وعدے شامل تھے مگر تحریک انصاف ان وعدوں کی تکمیل میں کہاں تک کامیاب ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج حکومت کی نصف مدت پوری ہونے کے بعد جب این آر او نہ دینے والوں کے سامنے ریلیف کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ہماری تو حکومت میں آنے کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی تین ماہ تو گورننس کو سمجھنے میں لگ گئے جبکہ ڈیڑھ سال تک اعداد و شمار کا پتا نہیں چل سکا۔


وزیر اعظم کے اس بیان کو صاف گوئی کہیں یا اعتراف شکست اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا فرق تو تب پڑتا ہے جب آپ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے ایک ٹیم تیار کر لی گئی ہے ہم مختصر کابینہ کے ساتھ ایسی بہترین ٹیم سامنے لائیں گے جو نہ صرف ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالے گی اندرونی بیرونی قرضوں سے نجات دلائے گی بلکہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی مگر اس بہترین ٹیم کی بہترین کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سالوں میں چار مرتبہ کابینہ میں رد و بدل کیا جا چکا ہے اور اس کابینہ کی مزید کارکردگی یہ ہے جو رکن جتنا بہتر انداز میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اسے اتنی ہی بہتر وزارت سونپ دی جاتی ہے۔


جہاں تک وزیر اعظم کی جانب سے تیاری مکمل نہ ہونے کی بات ہے وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ ایک تو تحریک انصاف اس سے پہلے بھی پانچ سال تک کے پی میں حکومت کر چکی تھی اور پھر اسد عمر کے علاوہ جتنے بھی لوگ کابینہ میں شامل ہیں وہ ماضی میں نہ صرف کسی نہ کسی حکومت میں شامل رہے بلکہ اہم وزارتیں بھی ان کے پاس رہیں یوں وہ نہ صرف حکومت کا بہتر تجربہ بھی رکھتے تھے بلکہ اندرونی صورتحال سے بھی بخوبی واقف تھے اور پھر عمران خان 22 سالہ جدوجہد کے باوجود اگر ملک کی اندرونی صورتحال کا تجزیہ نہیں کر سکے تو یہ ان کی جدوجہد  پر بھی سوالیہ نشان ہے۔


ایسی صورتحال میں اگر قوم کو بار بار یہ بتایا جاۓ کہ سابقہ حکمران چور تھے کرپٹ اور ناہل تھے انکی پالیسیاں غلط تھیں ملک کو قرضوں میں جکڑ گئے یہ تمام باتیں ٹھیک ہیں مگر کیا تحریک انصاف کو اس لیے کامیاب کرایا گیا تھا کہ وہ پانچ سال تک این آر او نہ دینے کا اعلان کرتے رہیں بس چور اوے چور کا شور کرتے رہیں آپ بھلے این آر او نہ دیں مگر عوام کو تو ریلیف دیں آپ بے شک چوروں کا جینا دوبھر کر دیں مگر عوام کو تو سکھ کا سانس لینے دیں آپ بےشک لٹیروں کے گرد شکنجہ کسیں مگر عوام کی تو چیخیں نہ نکلوائیں آپ بے شک ملک لوٹنے والوں سے پائی پائی واپس کریں مگر عوام کے منہ سے نوالہ تو نہ چھینیں۔


حکومت اب اپنی نصف مدت پوری کر چکی ہے باقی کے اڑھائی سالوں میں آخری سال تو ویسے بھی انتخابات کی تیاری کا سال ہوتا ہے یوں حکومت کے پاس اپنے وعدوں کی تکمیل اور كاركرگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچتا ہے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تبدیلی والے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں  آخر کب تک موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کے تابوت سامنے رکھ کر ماتم کرتی رہے گی کب تک ان کی نااہلی کی خاک اپنے سر میں ڈال کر خود کو مظلوم ثابت کرتی رہے گی کب تک ان کو برہنہ کر کے خود کو ڈھانپتی رہے گی کب تک ان کے جرم دکھا کر خود کو نیک ثابت کرتی رہے گی آخر کب تک چوروں کی کہانیاں سنا کر عوام کو لوریاں دیتی رہے گی اب بھی وقت ہے تحریک انصاف اپنے منشور اور وعدوں کی تکمیل کے لیے صرف احتساب کی باتیں نہ کرے بلکہ عملی طور پر احتساب کرے اور عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرے ورنہ بیساکھیوں کے زریعے خود کو مضبوط سمجھنے والوں کا حشر اس کے سامنے ہے جب وقت بدلتا ہے تو یہی بیساکھیاں لاٹھیاں بن کر حشر نشر کر دیتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :