بلدیاتی ادارے اور حکومتی ارادے

پیر 29 مارچ 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب بھر کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کے حکم کے بعد ہر سو بحال ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو مبارکباد کے پیغامات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کی بلدیاتی اداروں کے ساتھ کس قدر جذباتی وابستگی ہے اور پھر مقامی حکومتوں کے بغیر کسی بھی جمہوری حکومت کو مکمل جمہوری حکومت نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ آپ کی گلی ، محلے یا شہر کا کوئی مسئلہ ہو سڑکیں ، سیوریج ، صفائی یا صاف پانی کی فراہمی کا کوئی مسئلہ ہو دفتری معاملات ہوں یا علاقائی تعمیر و ترقی کے دیگر مسائل آپ گھر سے نکلتے ہیں دوسری گلی میں کونسلر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں کونسلر کے پاس آپ کے ساتھ چلنے یا آپ کا مسئلہ حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ عوام میں سے ہوتا ہے اور اس نے عوام میں رہنا ہوتا ہے مگر جب کونسلر موجود نہیں ہوتے تو آپ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے ایم پی اے کے ڈیرے پر حاضری دینی پڑتی ہے پہلے تو ایم پی اے موجود نہیں ہوتا کیونکہ اس کا زیادہ وقت لاہور اسلام آباد میں گزرتا ہے اور اگر موجود ہو تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا پھر آپ کو ایم پی اے کے پی اے کی منت کرنی پڑتی ہے جو ایم پی اے سے بڑھ کر ایم پی اے ہوتا ہے جبکہ سرکاری دفاتر میں عام آدمی کی نہ رسائی ہوتی ہے نہ شنوائی ہوتی ہے ایسے میں جمہوریت کا ہونا اور نہ ہونا عوام کے لیے برابر ہوجاتا ہے کیونکہ جمہوریت اس وقت تک حقیقی طور پر ثمرآور نہیں ہوسکتی جب تک اقتدار اور اختیار کو نچلی سطح پر منتقل نہ کیا جائے اور عام آدمی کو براہ راست اس کا حصہ نہ بنایا جائے اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہ ہوں اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب مقامی حکومتوں بلدیاتی اداروں کو بحال ، فعال اور با اختیار بنایا جائے وطن عزیز میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ بلدیاتی اداروں کو فعال اور با اختیار بنانے کی کوشش ہی نہیں کی اول تو تمام سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے ٹال مٹول سے کام لیتی ہیں اور اگر با امر مجبوری بلدیاتی انتخابات کرانے بھی پڑ جائیں تو فنڈز اور اختیارات سے محروم کر دیتی ہیں اس حقیقت کو تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں جنرل مشرف کے دور میں بننے والی مقامی حکومتیں ہی ایسی حکومتیں تھیں جنہیں حقیقی طور پر با اختیار مقامی حکومتیں قرار دیا جاسکتا ہے اس وقت ایم پی ایز اور ایم این ایز نے بھی استعفے دے کر تحصیل ناظم اور ضلع ناظم کے الیکشن لڑے ورنہ عام طور پر ہمیشہ ان اداروں کو بے اختیار رکھا گیا نہیں معلوم وہ کون سا ایسا خوف ان سیاسی جماعتوں کو لاحق ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی جماعت بلدیاتی اداروں کو فعال مضبوط اور با اختیار بنانے کے لیے تیار نہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان تحریک انصاف سے امید تھی کہ وہ اس روایت بد کا خاتمہ کرے گی کیونکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، نیا بلدیاتی نظام اور بلدیاتی انتخابات تحریک انصاف کے منشور اور انتخابی وعدوں کا حصہ تھے مگر ان کا حشر بھی ویسا ہی ہوا جیسا دیگر تمام وعدوں کا ہوا 2018 میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت پاکستان مسّلم لیگ ن کے دور میں 2016 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تحت بننے والی مقامی حکومتیں موجود تھیں مسلم لیگ ن نے بھی سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد با امر مجبوری انتخابات کرائے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے بلدیاتی اداروں کو یہ کہہ کر معطل کر دیا کہ وہ اگلے 6 ماہ میں بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے بعد نیا بلدیاتی نظام متعارف کرائیں گے جس کے تحت نئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے جس سے اختیارات عملی طور پر نچلی سطح پر منتقل ہونگے اور عوام کو با اختیار بنایا جائے گا مگر 6 ماہ کے بعد بلدیاتی اداروں کی معطلی میں مزید ڈیڑھ سال کی توسیع کر دی گئی مگر اب تین سال ہونے کو آئے ہیں نئے بلدیاتی نظام کا اعلان بھی ہوچکا مگر بلدیاتی انتخابات کا دور دور تک نشان دکھائی نہیں دیتا گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام کو ان کے منتخب نمائندوں سے محروم کرنا کسی بھی طور آئینی نہیں 2019 میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بلدیاتی ایکٹ کی شق 3 ماضی میں پاکستان کے آئین کا حصہ رہنے والے قانون 58 ٹو بی کے مترادف ہے عدالت کا کہنا تھا کہ محض ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر اداروں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اور اب یہ خبریں سامنے آرہی ہیں سپریم کورٹ کی جانب سے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کے حکم کے خلاف پنجاب حکومت عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ماضی میں بھی اداروں کو ارادوں کے تابع رکھنے کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے جس سے نہ تو جمہوریت مضبوط ہوئی اور نہ ہی ادارے مضبوط ہوۓ یقیناً یہ ایک تشویشناک پہلو ہے حکومت اگر نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کو پوزیشن میں نہیں تو پہلے سے موجود بلدیاتی حکومت کے حق سے تو محروم نہ کرے جن کی مدت دسمبر 2021 تک باقی ہے اور اگر حکومت اسوجہ سے ان بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے سے خوف زدہ ہے کہ ان میں منتخب نمائندوں کی اکثریت کا تعلق مسّلم لیگ ن سے ہے تو پھر حکومت کو آگے بڑھنا چاہئے اور پنجاب میں متعارف کرائے گئے نئے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات کرانے کا اعلان کر دینا چاہئے کیونکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا وعدہ بھی تھا اور عوام کا حق بھی ہے مگر ایک طویل عرصہ تک عوام کو مقامی حکومتوں کے حق سے محروم رکھنا تحریک انصاف کی سب سے بڑی نا انصافی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :