بجٹ اور عام آدمی

منگل 15 جون 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

گزشتہ جمعہ کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تیسرے وزیر خزانہ جب تیسرا قومی بجٹ پیش کرن جارہے تھے  تو میں پچھلے تین گھنٹوں سے پسینے میں شرابور بیٹھا بجلی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ میں اپنے کانوں سے سن سکوں کہ حکومت نے اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے کیا خاص اقدامات اٹھائے ہیں حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس وقت بجلی کا شارٹ فال بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے یوں تو موجودہ حکومت ہر منفی کام کو سابقہ حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال کر بری الزمہ ہو جاتی ہے مگر لوڈ شیڈنگ کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا کیونکہ سابقہ حکومت کے دور میں لوڈ شیڈنگ زیرو ہو چکی تھی جبکہ موجودہ حکومت کے پچھلے دو سالوں میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی مگر اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔

(جاری ہے)


جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے یہ تو ایک ریہرسل ہوتی ہے جو ہر سال جون میں کی جاتی ہے یہ بجٹ تو ایک کارروائی ہوتی ہے جو ہمیشہ ڈالی جاتی ہے ورنہ تو سب کچھ سکرپٹڈ ہوتا ہے جو پہلے سے لکھا جا چکا ہے بس اعداد و شمار تبدیل کئے جاتے ہیں لفظ آگے پیچھے کئے جاتے ہیں کردار بدل جاتے ہیں اداکار بدل جاتے ہیں یوں ہر سال جون میں نیا کچھ نہیں ہوتا بس پرانی کہانی دہرائی جاتی بجٹ پیش ہوتا ہے اپوزیشن شور شرابا کرتی ہے ہنگامہ آرائی ہوتی ہے بجٹ کی کاپیاں پھاڑی جاتی ہیں حکومت بجٹ کو عوام دوست اور اپوزیشن عوام دشمن قرار دیتی ہے حکومت اسے عام آدمی کا بجٹ قرار دیتی ہے اور اپوزیشن آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتی ہے یوں بیانات جوابی بیانات اور بحث و مباحثے کے بعد پتا بھی نہیں چلتا بجٹ پاس ہوجاتا ہے اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا اور آنے والے دنوں میں یہی کہانی دہرائی جائے گی۔


وزیر خزانہ نے حسب روایت یقین دہانی کرائی ہے کہ عمران خان کی قیادت میں معیشت کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لائے حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے  بجٹ میں عام آدمی کا خاص خیال رکھا گیا اللہ‎ کرے ایسا ہی ہو یوں تو ہر حکومت اس طرح کے دعوے کرتی ہے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوتا اس ملک کا عام آدمی بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بد قسمت بھی ، خوش قسمت اس لیے کہ ہر حکومت کا ہر اقدام عام آدمی کی بہتری کے نام پر ہوتا ہے اپوزیشن کا ہر بیان عام آدمی کی بہتری کے لیے ہوتا ہے مگر بدقسمت اس لیے کہ عام آدمی کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا حکومت ہمیشہ قیمتوں میں اضافہ کر کے یہ یقین دہانی کرواتی ہے کہ عام آدمی پر اس کا اثر نہیں پڑے گا مگر مجھے آج تک ایسا عام آدمی نہیں ملا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے خوش ہو کر کہہ رہا ہو کہ دیکھو مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑا۔


بجٹ میں عام آدمی کے لیے کیا رکھا گیا ہے اسے تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ملک میں تبدیل کو تلاش کرنا۔ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار کرنے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ اور کاروبار کے لیے 5 لاکھ تک بلا سود قرضوں کی فراہمی حکومت کے چند اچھے اقدام ضرور ہیں مگر پچھلے دو سالوں میں جس شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اس تناسب سے محض 10 فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہے جہاں تک کم از کم اجرت 20 ہزار کرنے کا اعلان ہے اس وقت تک اس کی کوئی اہمیت نہیں جب تک پرائیویٹ سیکٹر میں اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا کیونکہ حکومت ہمیشہ اعلانات کر کے یہی سمجھتی ہے کہ اس نے فرض پورا کر دیا۔

دوسری طرف ٹریکٹر کے علاوہ کھاد ، بیج ، زرعی ادویات اور زرعی مشینری کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کسی قسم کی سبسڈی نہ دینے سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر چھوٹے کاشتکاروں کو نظر انداز کیا ہے۔ جبکہ چینی ، گھی ، آٹا اشیاء خوردنی انسانی جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوئی اقدامات نہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت عام آدمی کو مہنگائی کے دلدل سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

دوسری طرف آئی ایم ایف سے ہونے والے مزاکرات کا نتیجہ یقیناً شرائط کو من و عن تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جس کے نتیجے میں بجلی کے نرخ ایک بار پھر بڑھ جانے کا خدشہ ہے جس کے براہ راست اثرات عام آدمی پر پڑیں گے اسی طرح وفاقی حکومت نے پیٹرولیم لیوی کا نیا حدف 160 ارب روپے زیادہ مقرر کیا ہے جو کہ اس امر کی طرف اشارہ ہے اور وزیر خزانہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں فی بیرل تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں تو ہمیں اگلے ایک دو ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 20 سے 25 روپے بڑھانا پڑیں گی جو کہ پچھلے دو ماہ سے نہیں بڑھائی گئیں۔


اس تمام صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حسب سابق حالیہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے محض سہانے سپنوں ، دلفریب وعدوں اور جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ بھی نہیں مگر اس کے باوجود اگر اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی چھوڑ کر بجٹ میں بہتری کے لیے اپنی تجاویز پیش کرے اور محض زبانی جمع خرچ کے بجائے عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو سامنے رکھ کر بجٹ پر نظر ثانی کی جائے تو یہ ایک خوش آئند امر ہوگا ورنہ جو بجٹ پیش کرتے ہیں وہ پاس بھی کروا لیتے ہیں مگر پاس کروانے والے کبھی پاس نہیں ہوتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :