ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت

ہفتہ 4 جولائی 2020

Mian Habib

میاں حبیب

کرونائی ماحول میں سماجی دوریاں بڑھ رہی ہیں کاروبار سکڑ رہے ہیں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اضطراب پایا جاتا ہے ہر طرف مندی کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے لیکن ایسے ماحول میں بھی کاروبار سیاست میں ٹریڈنگ کا گراف بڑھ رہا ہے کوئی اپنا ریٹ لگوا کر اپنی مارکیٹ ویلیو چیک کر رہا ہے تو کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی کے تحت اپنی سیاست کو محفوظ بنانے کی سرمایہ کاری کر رہاہے کوئی اپنی بقا کے لیے سیاسی مارکیٹ میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے تو کوئی کسی کو گرا کر آگے بڑھنے کی تگ و دو کر رہا ہے کچھ لوگ ایسے ماحول میں سیاسی بلیک میلنگ کے چکروں میں ہیں کچھ سیاسی مجبوریوں سے بھی فائدہ اٹھا رہیہیں گویا کہ کاروبار سیاست عروج پکڑ رہا ہے لیکن اس خرید و فروخت کے ماحول میں اخلاقیات اچھی روایات نظم و ضبط رکھ رکھاو سیاسی اصول ضابطے سب دفن کر کے مفادات کو پروان چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے تازہ خبر ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے کچھ لوگوں نے تحریک انصاف کے وزیراعلی عثمان خان بزدار سے ملاقات کی ہے ویسے تو یہ ارکان اسمبلی پہلے بھی وزیراعلی سے مل چکے ہیں اس وقت یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ یہ ابتدا ہے آگے چل کر بہت کچھ عیاں ہونے والا ہے لیکن لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی تھی اور خرید و فروخت پر سٹاپ لگ گیا تھا اور کچھ عرصہ تک سیاسی منڈی میں خرید و فروخت بند رہی لیکن بدلتے حالات کے تحت جب اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومتی اتحادیوں کو سبز باغ دکھانے شروع کیے اور یہ تاثر دیا جانے لگا کہ وہ حکومت کے اتحادیوں کو توڑ کر نئی حکومت بنا سکتیہیں اور نئے سیٹ اپ میں اتحادی جماعتوں کو کلیدی کردار دیا جائیگا جس حکومتی اتحادیوں کی اہمیت مذید دو چند ہو گئی اتحادیوں نے مارکیٹ ویلیو کے مطابق اپنے رویے بھی تبدیل کر لیے خصوصی طور پر وفاق میں جب عطا اللہ مینگل نے اپنی جماعت کو حکومت سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا اور ان کی تقلید میں شاہ زین بگٹی بھی میدان میں آگئے تو باقی اتحادیوں کی مارکیٹ ویلیو اور زیادہ بڑھ گئی اور انھوں نے بھی حکومت کو نخرے دکھانے شروع کر دیے حکومت اتحادیوں کو مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن جس طرح ساس اور بہو ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے لاکھ کوششوں کے باوجود مطمئن نہیں ہوتیں اسی طرح اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود حکومت اور ان کے اتحادی ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہو رہے اتحادیوں کی کوشش ہے کہ وہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کر لیں اس میں اختیارات، فنڈز اور علاقائی بالادستی شامل ہے ایسے میں حکومت نے بھی اصولوں کے برعکس مارکیٹ میں دستیاب متبادل پر سرمایہ کاری شروع کر دی ہے وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن کے متعدد ارکان اسمبلی حکومتی رابطوں میں آچکے ہیں اور وہ اپنی خدمات انتہائی سستے داموں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ان میں زیادہ تر ارکان اسمبلی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں انتظامیہ اور پولیس کو ان سے تعاون کی ہدایت کر دی جائے تاکہ وہ اپنے ووٹروں سپورٹروں کے کام کروا سکیں اور آئندہ اپنی کامیابی کی راہ ہموار کر سکیں ان ارکان اسمبلی میں زیادہ تر تعداد مسلم لیگ ن کی ہے جو اپنی قیادت کی سرد مہری سے تنگ آ چکے ہیں جو آپنے معاملات کے لیے ہرقسم کی ڈیل اور تعاون کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ایسے میں ارکان اسمبلی بھی کسی انڈر سٹینڈنگ میں کوئی برائی نہیں سمجھتے یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سیاسی خریداری کر کے سیاست کا جنازہ نکالنا چاہتے ہیں یا ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کر کے معاملات کو چلتے رہنے دینا چاہتے ہیں تمام سیاسی گروپ سیاسی خرید و فروخت سے اجتناب کریں ورنہ جوڑ توڑ کی سیاست میں ایسا گند پڑیگا کہ کسی سے سنبھالا نہ جائیگا سیاسی نظام پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے اس سے عوام میں مزید بیزاری کی لہر آئے گی جس کا نقصان بہر حال سیاستدانوں کو اٹھانا پڑے گا لہذا ایک دوسرے کا بھرم رہنے دیں کیونکہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہونے کے علاوہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا لڑائی اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہی لڑی جائے تو اچھی ہے اصولوں ضابطوں کے برعکس لڑی جانے والی لڑائی میں سب کی تباہی ہے خدارا ملک میں سیاسی افکار کو مضبوط ہونے دیں ایسی لڑائیوں سے نااہلیاں چھپ جاتی ہیں اور عوام کو دوبارہ بے وقوف بنانے کے کئی جواز سامنے آجاتے ہیں ماضی میں اسی خریدوفروخت کی وجہ سے ہم کئی دہائیاں ضائع کر چکے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :