پنجاب کو بزدار کے ساتھ رہنا ہے

بدھ 22 جولائی 2020

Mian Habib

میاں حبیب

 پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے آدھے سے زیادہ پاکستان ہے یہاں کا حکمران آدھے سے زیادہ پاکستان کا بادشاہ ہے اوپر سے ماضی کے حکمرانوں نے تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھنے کے لیے ایسے قواعد و ضوابط وضع کیے کہ پنجاب کا وزیر اعلی دوسرے صوبوں سے زیادہ با اختیار وزیر اعلی ہوتا ہے وفاق میں اقتدار کا راستہ بھی چونکہ پنجاب سے جاتا ہے اس لیے سیاسی طور پر پنجاب کی اہمیت دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے پنجاب کے رہنے والوں کی نفسیات ہے کہ یہ ڈنڈے سوٹے والے کو زیادہ پسند کرتے ہیں میرا ایک تھانیدار واقف تھا جس کا بڑا ٹیرر تھا میں نے اس سے پوچھا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ تم جان بوجھ ایسے کام کرتے ہو جس سے ٹیرر پیدا ہو اس کا جواب تھا یہاں کے لوگ شریف آدمی کو تھانیدار ہی نہیں مانتے یہ چھتر مارنے والے کو کہتے ہیں بڑا تگڑا تھانیدار ہے یہی حال کچھ ہمارے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کا ہے بیچارا شریف آدمی ہے اپنے کام سے کام رکھتا ہے ہر کام میں مداخلت کی بجائے نظام کو فالو کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی خواہش ہے کہ سارا کچھ سسٹم کے ذریعے چلے لیکن کیا کیا جائے ماضی میں ایسی روایات نہیں رہیں چپڑاسی تک کے تقرر وتبادلے وزیراعلی کے حکم سے ہوتے تھے اس لیے لوگوں کو وکھری ٹائپ کے وزیراعلی کی عادت پڑی ہوئی ہے ان کو شریف بے ضرر آدمی جچتا نہیں لہذا وہ ابھی تک بزدار کو وزیر اعلی ماننے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر دو چار ماہ بعد وزیراعلی کی تبدیلی کی افواہیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں خواہشات پر مبنی خبریں اور تجزیے سامنے آنا شروع ہو جاتیہیں ہر دفعہ وزارت اعلی کے نصف درجن امیدوار اپنے نام زیر بحث آنے پر خوش ہوتے رہتے ہیں اور آنکھوں میں وزارت اعلی کے خواب سجائے سو بھی نہیں سکتے لیکن اس وقت ان صحافیوں اور تبدیلی کے خواہش مند سیاسی لوگوں کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے جب وزیر اعظم عمران خان آکر بزدار کو تھپکی دیتے ہیں اور تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکال دیتے ہیں ایسے لگتا ہے بزدار کی تبدیلی عمران خان کی چھیڑ بن گئی ہے اور وہ اب ہر صورت بزدار کو چلانا چاہتے ہیں جتنی بار وزیر اعلی کی تبدیلی کی خبریں چلتی ہیں وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتے جاتیہیں جب بڑے تسلسل کے ساتھ یہ خبریں آرہی تھیں کہ وزیراعلی کی تبدیلی کا فیصلہ ہو گیا ہے ہم اس وقت بھی اپنے ٹی وی پروگراموں میں کہہ رہے تھے کہ بزدار کہیں نہیں جا رہے اب تو ویسے بھی انھیں 2 سال ہو چکے اور وہ بہت کچھ سیکھ چکے ہیں دراصل اس کو حالات کی مجبوری کہیں سیاسی چال کہیں یا پیر و مرشد کی آشیرباد باد کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بزدار پر رب مہربان ہے وہ قسمت کے دھنی ہیں کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جس آدمی کو انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ نہ مل رہا ہو اور اسے پارٹی آخری وقت میں اپنا امیدوار بنا لے وہ پہلی بار ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہا ہو اور وہ کامیاب ہو جائے جو منتخب ہونے کے بعد لاہور آئے اور اس کی سب سے بڑی خواہش یہ ہو کہ اسے ایم پی اے ہاسٹل میں اچھا سا کمرہ مل جائے وہ اسٹیٹ آفسر کے پاس جائے اور اسے انکار ہو جائے کہ کوئی کمرہ نہیں جس کا لاہور میں کوئی ٹھکانہ نہ ہو جسے اسمبلی میں داخل ہونے کے راستے کا پتہ نہ ہو اور افتتاحی سیشن میں ایوان کے اندر جانے کا راستہ ڈھونڈتا پھر رہا ہو اور پھر اسے علاقے کا ایک ساتھی ایم پی اے ایوان میں لے کر جائے ،جس کا کوئی مضبوط سیاسی بیک گراونڈ نہ ہو جس کا کوئی مضبوط سیاسی دھڑا نہ جس کی لابی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو قدرت اس کا ایسا انتظام کردے کہ بڑے بڑے سیاسی گھرگھے حیران رہ جائیں کہ یہ کہاں سے نکل آیا ہے تو یہ رب کی کرم نوازی کے علاوہ اور کچھ نہیں بڑے بڑوں کی سازشوں جوڑ توڑ اور کوششوں کے باوجود رب بزدار پر مہربان ہے بزدار وہ اینٹ ہے جو اقتدار کی عمارت میں ایسی فٹ ہو گئی ہے اور حالات ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی انھیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کی غلطی کی وجہ سے یہ تاثر عمران خان کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے کہ اگر بزدار کو ہٹایا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوبارہ تحریک انصاف کی حکومت نہ بن سکے جس کی وجہ سے وزیر اعظم انھیں ہٹانے کا رسک نہیں لے رہے لہذا یہ تسلیم کر لیں کہ پنجاب کو بزدار کے ساتھ ہی رہنا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :