ہم کامیابیوں کا کریڈٹ کیوں نہیں لیتے

جمعہ 28 اگست 2020

Mian Habib

میاں حبیب

کامیابیوں کو دوہرانے ان پر فخر کرنے سے حوصلے بڑھتے ہیں اور مذید کامیابیوں کے راستے کھلتے ہیں لیکن ہم ہم کامیاب ہوتے لوگوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے خواہ مخواہ ان کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں ان کی مخاصمت پر اتر آتے ہیں اس کی کامیابیوں میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتے ہیں یہ عمومی رویے ہر سطح پر پائے جاتے ہیں اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں۔

ہم نے اپنے ذہنوں میں بیٹھا لیا ہے کہ ہم کوئی کامیابی حاصل کر ہی نہیں سکتے ہمیں اغیار بہت پسند ہیں ان کے کارناموں کو ہم بڑا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اپنوں کی دلجوئی کی بجائے اس پر تنقید کے نشتر برساتے ہیں اور اس کو اتنا دلبرداشتہ کرتے ہیں کہ وہ حوصلہ چھوڑ جاتا ہے ہم نہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں نہ کسی کو کچھ کرنے دینا چاہتے ہیں ٹانگیں کھینچنے کا رواج عام ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان نے تین اہم کامیابیاں حاصل کیں لیکن مجال ہے ہم نے کبھی ان کا نام لیا ہو پاکستان دہشت گردی کے جس آسیب میں پھنس چکا تھا کوئی نہیں کہتا تھا کہ پاکستان اس سے باہر نکل سکے گا لیکن افواج پاکستان، قومی سلامتی کے اداروں پولیس اور قوم نے قربانیاں دے کر دہشت گردوں کا خاتمہ کیا دہشت گردی پر جس طرح پاکستان نے قابو پایا اس پر دنیا حیران ہے کیونکہ دنیا کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ملک بھی اس پر قابو پانے میں ناکام رہے ۔

پاکستان کو اس کا کریڈٹ لینا چاہیے اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم سیکیورٹی کے ایکسپرٹ ہیں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ہم اپنے تجربہ اور مہارت کی مارکیٹنگ کر سکتے تھے اور اپنی سروسز سے کما بھی سکتے تھے دنیا نے ہماری مہارت سے متاثر ہو کر ہمارے ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات بھاری معاوضوں پر حاصل کر رکھی ہیں ۔ لیکن اگر اسی کام کو منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا تو پورے مڈل ایسٹ کی سیکیورٹی ہمارے پاس ہوتی اور ہم کروڑوں اربوں ڈالر کما رہے ہوتے ہم نے دہشت گردی پر قابو پانے کی کامیابی کی دنیا میں کیا مارکیٹنگ کرنی تھی ہم ابھی تک یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ ہماری عظیم کامیابی ہے ۔

ہم آج بھی اس حوالے سے طرح طرح کے کیڑے نکال رہے ہیں دوسرا یہ کہ خطے میں ایک وقت تھا جب پاکستان تنہا رہ گیا تھا اور پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالی کی خاص عنایت سے ہم بھارت کو خطے میں تنہا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندررمودی کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے اور ہمارے دیرینہ دوست چین کی حکمت عملی اور اس کے سرمائے کا بھی بڑا عمل دخل ہے لیکن اس کا کریڈٹ پاکستان کو لینا چاہیے تاکہ عوام کے حوصلے بلند ہوں آج ایران انڈیا سے دور ہو چکا ہے۔

نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ سب بھارت کی دسترس سے نکل آئے ہیں افغانستان میں اس کا کردار محدود ہو گیا ہے علاقے کا تھانیدار بننے کی خواہش دم توڑ گئی ہے وہ خطے میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اس کامیابی پر ہمیں ڈھول بجانے چاہیں تھے کیونکہ ہم اس کو جتنی اپنی کامیابی گردانیں گے اور جتنا اس کا پروپیگنڈہ کریں گے اتنا ہی بھارتی قوم ڈی مورلائز ہو گی اور پاکستانیوں کو حوصلہ ملے گا۔

لیکن ہمیں شاید کامیابی کا احساس نہیں یا پھر ہمیں یقین نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے ہماری تیسری بڑی کامیابی کرونا پر قابو پانا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا نے ہلاکتوں کے ڈھیر لگا دیے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس پر قابو نہیں پایا جاسکا لیکن ہمارے ٹوٹکے کام دیکھا گئے ہمارے الٹے سیدھے لاک ڈاؤن ہمارے پلازمہ کے ذریعے علاج اور کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے دیگر اقدامات قدرت کو پسند آگئے اور آج پاکستان میں کرونا اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے دنیا اس معجزے پر حیران ہیں ترقی یافتہ اقوام ہم پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح قابو پایا ہے جبکہ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم ابھی بھی ایک دوسرے پر تنقید کرنے اور ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرنے سے باز نہیں آرہے۔

بطور قوم ہمیں اس کا کریڈٹ لینا چاہیے لوگوں کو بتانا چاہیے کہ ہم نے کس طرح کرونا کو پھیلنے سے روکا ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ آج دنیا ہم سے پوچھ رہی ہے کہ آپ نے کس طرح اس وبا پر قابو پایا لیکن کوئی بتانے والا نہیں ہمیں اس کی فنی توجیہات کو مرتب کرکے دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم نے اس طرح سے اس کو کنٹرول کیا ہے۔ اس میں ہمارے ماہرین کا یہ کریڈٹ ہے ہماری انتظامیہ کا یہ کریڈٹ ہے ہمارے اداروں کا یہ کریڈٹ ہے قوم کا یہ کریڈٹ ہے لیکن ہماری حکومت اور اپوزیشن کوایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہمیں دنیا کو اپنی کامیابیاں گنوا کر اپنے وقار میں اضافہ کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :