درختوں کو زندہ رہنے کاحق دیں

بدھ 17 اپریل 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

درخت کسی بھی جگہ کے ماحول کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ہرے بھرے سر سبزوشاداب درخت ماحول کو خوبصورتی بخش کے دیکھنے والوں کے تسکین و ذوق کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں جنگلات اورانسان کا ساتھ ابتداء دنیا سے ہی ہے پہلے حضرت انسان جنگلات اور غاروں میں ہی ر ہا کرتا تھا جب کہ غذائی ضرورت جنگلات میں موجود پھل ، پھول، بیج ،جڑی بوٹیاں،شہد اور دیگر اشیا وغیرہ کھا کر پوری کرتا تھا انسان نے ترقی کی اور درختوں کو کاٹ کر اسی جگہ گھر بنائے بس انسان نے یہی غلطی کی جس کا خمیازہ ہمیں آج ما حو لیاتی آلودگی کی صورت میں بھگتناپڑھ رہا ہے ماحولیات کے حوالے سے استعمال ہونے والی بنیادی اصطلاحات کا ماخذ اسلام ہے جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگواربنانے آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اس میں انواع و اقسام کے پرندے ،جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں جتنی ضرورت جنگلات کی انسان کو ہے اس سے زیادہ ضرورت ان جانوروں اور حشرات الارض کو ہے درختوں سے جانوروں کو غذا حاصل ہوتی ہے ان کے پھلوں سے انسان بھی اپنی غذائی ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں درخت زندگی کی علامت ہے درحقیقت کسی بھی ملک میں 25فیصد جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے مگر ہمارے ملک میں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی زیادہ اہمیت اور قدرو قیمت ہے اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ نا پدید ہوتے جارہے ہیں کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑپر محیط تھے جو ،اب صرف ہزاروں ایکڑتک محدود ہوگئے ہیں اگر درختوں کی کٹائی کا رفتار ایسے ہی جاری رہا تو جنگلات چند ایکڑتک محدود ہوکر رہ جائیں گے ایک اندازے کے مطابق روس میں49 فیصد برازیل57 میں فیصد انڈونیشیا میں47 فیصد سوئیڈن میں74 فیصد اسپین میں54 فیصد جاپان میں67 فیصد کینیڈہ میں31 فیصد امریکہ میں30 فیصدبھارت میں 23 فیصد بھوٹان میں72 فیصد اور نیپال میں39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں2.2 فیصد جنگلات ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں مجھے آج بھی اپنے گاوٴں 1 اے جی ڈی ؛سسخی ابدال کے درخت یاد ہیں جن میں پرندوں اور جانوروں کی ایک دنیا آباد تھی اس وقت درخت کاٹنے نہیں بلکہ لگانے کا رواج تھا کیونکہ درخت ہمارا تعلق فطرت سے قائم رکھتے ہیں ایک درخت پر بیسوں پرندوں کے گھر ہوتے تھے ہمارا فرض ہے کہ جس طرح درخت ہمیں زندگی فراہم کرتے ہیں اسی طر ح ہم بھی انھیں زندہ رہنے کا حق دیں اور معصوم و بے زبان پرندوں سے ان کا گھر نہ چھینیں جنگلات کسی بھی ملک میں اس کی زمین اور آب و ہواکے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں عموماًجنگلات کے تحفظ اور ان کو بڑھانے کا رجحان ہر ملک میں ہے مگر یہاں معاملہ ، یکسر، الٹ ہے وطن عزیز میں جنگلات کے کٹاوٴ کا سلسلہ کبھی چوری اور کبھی سینہ زوری سے جاری ہے جس میں بیشتر ٹمبر مافیا کے ساتھ علاقے کے بااثر لوگ ملوث پائے جاتے ہیں جسکے تدارک کیلئے خاطر خواہ کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی اس گھناوٴنے فعل کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ہر کسی نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں انسداد کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ محکمہ جنگلات اور محکمہ ماحولیات درحتوں کی کٹائی کو روکنے کی بجائے الٹا اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہے بالخصوص ٹمبر مافیا متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے جنگلات کی کٹائی ایسے بے دردی سے کروارہے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر یہ صورتحال اسی طرح جارہی تو بہت جلد یہ سارے جنگلات ختم ہو جائیں گے اور یہ سرسبز پہاڑچٹیل ، کف دست میدانوں اور ریگستانوں میں تبدیل ہوجاہیں گے اس وقت سب سے زیادہ جنگلات آزاد کشمیر میں4 لاکھ 35ہزار138ہیکٹررقبے پر محیط ہیں جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا 9․ 36ََََََََِ فیصد بنتا ہے خیبر پختونخوامیں3․2oفیصداسلام آباد میں 6․22 فیصد فاٹا میں 5․19 فیصد گلگت بلتستان میں 4․8 فیصد سندھ میں6 ․ 4 فیصد پنجاب میں 7․2 فیصدبلوچستان میں 4 ․ 1 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں 2011ء میں سروے کے مطابق پاکستان کے مجموعی رقبے کے1․5 فیصد جنگلات تھے لیکن اب بد قسمتی سے اس وقت پاکستان سالانہ 42ہزار ہیکٹر جنگلات سے محروم ہو رہا ہے اقوام متحدہ کی تنظیم برائے فوڈاینڈایگریکلچر آگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مجموعی ملکی رقبے کا محض2․ 2 فیصدبنتا ہے اور پاکستان جنگلات کی شرح میں کمی والے کل 143 ملکوں کی فہرست میں113 نمبرپر موجود ہے اور ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان دنیا کے 10ممالک میں ساتوں نمبر ہے جنہیں سخت ماحولیاتی تغرات کا سامنا ہے پاکستان کی زمینی سمندری اور فضائی آلودگی نے پورے ایکوسسٹم کو متاثر کیا اور یہ ملک دنیا کے 12 ممالک کی مہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پورے ایکو سسٹم کو سخت خطرات لاحق ہیں جنگلات کے تحفظ کے لیے بہت سے موثر قوانین موجود ہے لیکن اس پر عملدارآمد کی کمی ہے جس کی وجہ سے لکڑی چور روز بروز لکڑیاں چوری کرکے طاقتور ہوتا جا رہا ہے اورقانون کمزور ایسے لکڑی چور جو اپنے آپ معاشرے میں اہم اور معزز ثابت کرنے میں ہر قسم کے وسائل بروئے کار لاتے ہیں جس کے معاشرے پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر شاعر ہ نے کیا خوب کہا ہے ۔

(جاری ہے)

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا چڑیوں کو بڑاپیار تھا اس بوڑھے شجر سے محکمہ جنگلات کی لکڑی کی نقل و حمل پرمٹوں پر پابندی عائد کی جائے اور قانونی طور پر بھی اس کی کٹائی پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ جنگلات کے تحفظ کے لیے تیس سالہ ایمر جنسی لگا نے اور پالیسی ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جا سکے رسیاست لوگوں کی اگاہی کے لیے ایک موثر مہم چلائے اور لکڑی چوری کے قانون میں ترمیم کرکے اس کی سزاسخت سے سخت لاگوکی جائے اس جرم میں ملوث پائے جانے والے عناصر پر گرفت مضبوط کرکے حوصلہ شکنی یقینی بنائی جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :