کرپشن کی یلغار

پیر 13 مئی 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

کرپشن کی یلغار نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہ ایک ایسادیمک ہے جو کسی نہ کسی صورت معاشرے اورنظام کو اندرہی اندر کھوکھلا کرنے میں مصروف ہے ۔ زمانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے ایسے ترقی یافتہ دور میں کرپشن کی بھی کوئی خاص شکل وصورت متعین نہیں ہے ۔ صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین کا نام ہی کرپشن نہیں بلکہ زمانہ اور حیثیت کے اعتبار سے رشوت کی شکلیں بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں اگر کوئی عام آدمی کسی کلرک کو رشوت دیتا ہے تو وہ چند نوٹوں کی شکل میں ہوتی ہے لیکن اگر یہی رشوت کوئی خاص شخص کسی بڑے عہدہ دار مثلاًوزیر ، مشیر ، بیوروکریٹ،یاکسی بھی بڑے منصب کو دیتا ہے تو وہ کبھی ،بنگالہ، فلیٹ، گاڑی یا پھر کسی بیرون ملک کی سیاحتی ٹکٹ وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہے لیکن اصل میں وہ رشوت کی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے اس لیے صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین کو ہی ہم کرپشن نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کے علاوہ بھی ہر وہ چیز جو اپنے جائز ناجائز مقاصد کے لئے دی جائے یاحاصل کی جائے وہ کرپشن ہی ہوگی انفرادی سطح سے لیکر اجتماعی سطح تک کرپشن کا اس ایک لا متناہی سلسلہ جارہی ہے کرپشن کے تالاب میں ساری مچھلیاں گندی نظر آتی ہیں چھوٹے لوگ چھوٹے پیمانے پر بڑے لوگ بڑے پیمانے پر کرپشن کررہے ہیں صرف اور صرف وہی شخص کرپشن سے محفوظ ہے جس کے ہاتھ حرام پیسے تک نہیں پہنچتے یا وہ لوگ جواپنے اللہ سے درتے ہیں اس معاشرے میں ایسے ایسے راشی افراد موجودہیں جو سمندر پی کر بھی اپنے ہونٹوں کو خشک رکھتے ہیں ایسے لوگ پر آسائش زندگی گزارنے کے لئے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور اس حقیقت کو بھی فرامو ش کر دیتے ہیں کہ وہ جب قبر میں جائیں گے تو خالی ہاتھ نہیں ہو گے بلکہ ان کے ساتھ انھیں کی بد عمالیاں ، کرپشن حرام زدگیاں اور لوگوں کی بددعاوٴئیں کثیر مقدار انھیں جہنم تک پہنچانے کا باعث بنے گئیں اس وقت معاشرے میں جو فرسٹریشن ہے نئی نسل کے اخلاق و کردار جتنی تیزی سے تباہ برباد ہو رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ حرام کی کمائی ہے حرام کی کمائی کسی بھی ذریعہ سے حاصل کی گئی ہو اس کے لیے، فریاڈکیا گیا ہو، مکر وفریب کا جال بچھایا گیا ہو ، عزت اور ضمیر کو نیلام کیا گیا ہو یا کسی بھی چور دروازے کا سہارا لیا گیا ہو لیکن یہ بات تو تہہ ہے کہ حرام کی کمائی زندگی کو حرام ضرور کرتی ہے اس کا حساب دنیا میں بھی دینا پڑتا ہے اور روز حشر بھی اس کے لیے جواب دے ہونا پڑے گا افسوس لوگوں کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں اس وقت معاشرے میں حرام حلال کی کوئی تمیز نہیں رہی اس حقییقت سے بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ کرپشن کی روک تھام کرنے والے اداروں کے بیشتر آفسران و ملازمین خود بھی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں کرپشن کی صورتیں اتنی مسخ ہوچکی ہے کہ اب کرپشن کرنے والوں اور کرپشن روکنے والوں کی شاخت آسانی سے ممکن نہیں ایسے لوگ اس بات کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اللہ ان کے اعمال کو انتہائی ناپسند دیدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے اور اس بات کا بھی احساس ہی نہیں کیا جاتا کہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں اور آخرت کے لئے جہنم کے انگارے خرید رہے ہیں یہ لوگ اپنے ضمیر کے بھی مجرم ہیں اور ملک و قوم کے بھی بد ترین دشمن ہیں اس وقت معاشرے میں کرپشن بدعنوانی کو روکنے کے لیے جتنے محکمے کام کر رہے ہیں ان میں فرائض انجام دینے والے کچھ آفسران حقیقی طور پر معاشرے سے کرپشن کے خاتمہ کے لئے سرگرم نظر آتے ہیں اسی سلسلہ راقم الحراف نے ڈائریکٹر انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ریجن ساہوال شفقت اللہ صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور کرپشن کے خاتمے میں ان کا بلند و بانگ حوصلہ پایا ۔

(جاری ہے)

اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ احتساب کے اداروں میں شفقت اللہ ڈائریکٹر انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ریجن ساہوال کے جیسے آفسران کی تعیناتی خوش آئند ہے اور معاشرے سے کرپشن کے خاتمے میں خاطر خواہ کمی ہوسکتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :