اُردو زبان اور ”اہل علم“

پیر 25 جنوری 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

اُردو اس پورے خطے کی ایک اہم زبان شمار ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسے برصغیر پاک وہند کی نہیں بلکہ سارک ممالک کی مشترکہ زبان اور مشترکہ ورثہ بھی قرار دیا جاتا ہے بنگلادیش میں اُردو متنازع بننے کے باوجود اب بھی سانس لے رہی ہے جبکہ افغانستان اور ایران کے لیے بھی اُردو اجنبی زبان نہیں ہے، لیکن ہمارے ہاں آج کل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اُردو میں لکھ تو ضرور رہے ہیں، لیکن وہ اُردو کے اساتذہ سے سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ اُردو لکھتے ہوئے وہ ایسی فاش غلطیاں کر جاتے ہیں جس کا شاید عام قارئین کو اندازہ بھی نہیں ہوپاتا مگر اُردوزبان سے شغف رکھنے والوں کے لیے وہ دل آزاری کا سبب ضرور بنتی ہیں۔

اسے اُردو کی بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کئی ”صاحب کتاب“ پر دستخط ثبت کرتے ہوئے” نذر“ کو’ ’نظر“ لکھ دیتے ہیں کہ پڑھنے والا سرپیٹ کر رہ جائے ان میں کئی تو درجنوں کتب کے مصنف ہونے کے ”دعویدار“پائے گئے اُردو گرائمرمیں مرکب الفاظ کو الگ الگ کر کے لکھا جاتا ہے عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفط کے بعد ایک وقفہ چھوڑتے ہیں اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

نجانے کس کی نظرکھاگئی اُردو کو کہ آج لکھنے والوں کی لکھاوٹ تو ایک طرف ٹائپ شدہ مضمون کا بھی سر ملتا ہے ناں پیر ایک زمانے تھا جب شعبہ ادارت میں اہل زبان کا راج ہوتا تھا کسی ”گستاخ“کو شعبہ ادارت کی دہلیزپار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی اخباری صنعت میں چند ایک جرائد کے سوا سب کے شعبہ ادارت کراچی میں ہوتے تھے گرائمر‘ہجے‘زبان‘مضمون ہر چیزکئی چھلنیوں سے گزرکرہی صفحہ ادارت پر جگہ پاتی تھی۔

لاہور بھی چونکہ ادیبوں ‘شاعروں اور دانشور کا بڑا مرکزتھا تو یہاں بھی کسی نوخیزکی کیا مجال کہ شعبہ ادارت کے سامنے سے بھی گزرجائے پھر زوال کا زمانہ شروع ہوا تو ادارتی صفحات کو ”ایڈیٹوریل“لکھا جانے لگا کیونکہ ”بابوں“کا زمانہ گزرگیا تھا ---بابے بھی عجب ہوتے تھے ایک ایک خبر کو اس وقت تک لکھواتے رہتے تھے جب تک اس کی املاء ‘گرائمر اور مضمون واضح نہ ہوجائے”اونچی دوکان پھیکا پکوان “کا محاورہ شاید آج کے بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کے لیے ہی ہے کہ ان کی املاء کو دیکھ کر انسان سرپیٹ کر رہ جاتا ہے جیسے لکھنے والے والے ایڈیٹنگ کرنے والے تو نتیجہ ٹھیک کیسے نکل سکتا ہے ؟ بات بابوں کی آئی تو جب ہم نے صحافت کے خارزار میں قدم رکھا تو ”کاتب“کا شعبہ دم توڑرہا تھا چند اخبار تھے جن کے صف اول اور آخر کی شہ سرخیاں کاتب لکھا کرتے تھے بدقسمتی سے ہم پیدا ہونے میں تھوڑی سستی کرگئے ورنہ شاید وہ دور بھی دیکھ پاتے جب پورے کے پورے اخبار کاتب ہاتھ سے لکھتے تھے ۔

اخباروں میں ضرورت ختم ہوگئی تو رائل پارک میں کبھی کوئی کاتب نظرآجاتا تھا فلمی پوسٹریا کسی عرس کا اشتہار لکھتا فلمیں بنا بند ہوئیں تو کاتب بھی غائب ہوگئے عرس کے اشتہار بھی کمپیوٹر پر بننے لگے تھے اخباری صنعت میں گرافک ڈزائنرزاور پیج میکر آگئے رائل پارک سے کاتبوں کے تحت پوش کہاں گئے کسی کو کیا غرض کیونکہ ان کے تحت پوشوں کی جگہ کمیوٹرکی میزنے لے لی تھی ملک کے ایک بڑے اخبار کی کاتب کے ہاتھ سے بنی”پیشانی“آج بھی غور سے دیکھیں تو ایک گراں قدر فن پارے سے کم نہیں کہ لفظ لاہور ایسے لکھا گیا ہے کہ بادشاہی مسجد کا گنبد نمایاں نظرآتا ہے۔

بات اُردوزبان سے شروع ہوکر کہیں اور پہنچ گئی کہ ہم ”بابوں“کے ساتھ یہی مسلہ ہے کہ ہم ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگتے ہیں
یاد ماضی ہے عذاب یارب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا
جب تک سانسیں چل رہی ہیں ماضی سے جان نہیں چھوٹ سکتی ”ہم کھڑے ہیں وہیں تم نے چھوڑا تھا جہاں“نہ ہم وہ رہے نہ زمانہ‘رہا شہر تو یہ بھی اجنبی ہوگیا ہے ہمارے لیے اندرون کی گلیوں میں جائیں تو کچھ کچھ اپنا سا لگتا ہے وگرنہ موئی ترقی ایک خوبصورت شہر کو کھاگئی ہے۔

موضوع کی طرف آتے ہیں ورنہ پڑھنے والے کہیں گے ”بابا“اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گیا ہے تحریری اُردو طویل عرصے تک ”کاتبوں“ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے جو عوام میں مقبول عام ہوئے مگر اہل زبان کے ہاں رانددرگاہ ایک پرانے دوست سے لفظ”آجشبکو“ کو کسی کاتب کا کارستانی بتایا مگر اس زمانے کے میں رائل پارک میں فلمی بورڈ بنانے والے ایک پینٹرکا کہنا ہے یہ کاتب کی کارستانی نہیں بلکہ لکھوانے والے کا اصرار تھا کہ پوسٹرکے سائزکو نہیں بڑھنا دیئے گئے سائزکے اندر رہتے ہوئے ہی سب کچھ کرنا ہے ‘کاتب موصوف پوسٹر ادھورا چھوڑکرناراض ہوکر چلے گئے تو فلم کے تقسیم کار نے دیواروں پر اشتہار لکھنے والے ایک پینٹرکو بلا کر لکھوائی کاکام اس سے کروایا تو اس نے جگہ کی کمی باعث ”آج شب کو “کو ملا کر ”آجشبکو“کردیا جو بعد میں فلمی صنعت میں رواج پاگیا۔

تاہم ایسے الفاظ کو اخبار‘جرائدیا کتب میں کوئی پذیرائی نہیں ملی مگر پھر وہ زمانہ بھی دیکھا جب نیوزایڈیٹرغلطی علم میں آنے کے بعد ہانک لگاتا کہ ”جانے دو چھپ کر ٹھیک ہوجائے گا بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں اُردوکی لکھائی کے لیے ”تحتی“کا خاتمہ ہے جس نے بھی سکول میں ”تحتی“لکھی ہوئی ہے وہ ایسی غلطی شاذونادر ہی کرتا ہے تحتی کے فوائد میں املا اور ہجوں کو درست لکھا جانا بھی شامل ہے ادھر ”تحتی “کا زمانہ ختم ہوا ادھر زبان کی شامت آگئی آج اُردو نہ تیتر ہے نہ بٹیر ۔

یہ ازلی حقیقت ہے کہ زبانیں ارتقائی عمل سے گزرتی رہتی ہیں مثال کے طورپرآج کے دور میں امیر خسرو‘قلی قطب شاہ‘میراں ہاشمی اور ولی دکنی کی شاعری اور نثر پڑھنے اور سمجھنے والے کہاں سے لائیں؟ لکھنو یا دلی میں شاید کچھ باقی ہوں مگر پاکستان میں یہ ناممکن ہی لگتا ہے آخررجوع انہی کتب سے کرنا پڑے گا جنہوں نے ان کی نثر کو عوامی زبان دی ہر زبان خواص اور عوام کے لیے الگ الگ رہی ہے سو‘دو سو سال پرانا ادب آج خواص کے لیے رہ گیا ہے عوام کو اس کی سمجھ نہیں تو میں ان احباب سے متفق نہیں جو خواص کی زبان کو عوام پر مسلط کرنے کی ایسی مشق کررہے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں ۔

علمی قابلیت کا رعب ڈالنے کے لیے آج ٹی وی چینلوں اور اہل صحافت میں سے کچھ احباب اس کام میں لگے ہیں زبانوں کا ارتقاء معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے خلیل جبران کا مخاطب عام لوگ تھے تو اگر وہ قدیم لبنانی یا عربی کو ذریعہ اظہار بناتا تو کیا اسے وہ پذیرائی ملتی جو اس کے حصے میں آئی؟پاکستان کے عوامی شعراء حبیب جالب ہوں یا ساغرصدیقی ان کے مخاطب عوام تھے خواص تو چوباروں سے نہیں اترتے اسی طرح انشاء کی شاعری ہو یا نثر اگر وہ عوام کی بجائے خواص کی زبان استعمال کرتے تو آج انہیں کتنے لوگ جانتے؟پطرس بخاری اور احمد فرازکے کتنے چاہنے والے ہوتے ؟دنیا کے انقلابی دانشور‘فلسفی اور شاعر عوامی زبان میں لوگوں سے مخاطب ہوئے وہ ماضی قریب کا انقلاب ایران ‘فرانس یا روس ہو‘ پذیرائی عوامی زبان کو ملی ۔

یہاں تک کہ تحریک آزادی ہند کے لیے مولانا حسرت موہانی جو رسالہ جاری کیا وہ ”اُردو معلی“میں تھا حالانکہ شاعری میں وہ اصلاح تسنیم لکھنوی سے لیتے تھے جو احباب غلط العام اور غلط العوام کے پیچھے پڑے ہیں وہ تو خود اپنے سکرپٹ لکھنے والوں سے کہتے ہیں کہ کچھ غلط العام اور غلط العوام الفاظ یا فقروں کو ان کے معنی سمیت فراہم کریں تاکہ وہ اپنے پڑھنے والوں یا ناظرین پر اپنے ”علم وفضل“کا رعب ڈال سکیں اگر آپ اتنے ہی زبان داں ہیں تو ہمت کریں اور کچھ مضامین اور پروگرام مکمل طور پر دہلوی اُردو یا ”دبستان لکھنو“ میں کرکے دیکھ لیں پانچویں پروگرام پر ٹی وی والے نکال باہر کریں گے کہ بھائی لوگ دیکھیں گے ہی نہیں تو اشتہار کہاں سے ملیں گے۔

ہمارے اساتذہ فرمایا کرتے تھے آسان ‘سہل اور عام فہم زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانا مگر ہمارے خانے نہ بیٹھی اُردو ادب میں ایم اے کا زعم تھا ایک مضمون جو لکھا تو بلاوا آگیا کہ میاں ہمارے اخبار کو پرائمری پاس سے لے کر پی ایچ ڈی پروفیسر تک نے پڑھنا ہے لہذا مضمون ہو یا خبر زبان ایسی ہو جو دونوں کی سمجھ میں آئے‘الفاظ کا چناؤ ہم نے ”دور مشقت “میں سیکھا زبان کی حفاظت ضروری ہے مگر یہ کام ہمیشہ سے خواص کا رہا ہے عوام ہر زبان میں اپنے راستے خود بناتے آئے ہیں اُردو کا ایک مسلہ اس پر فارسی‘ترکی اور عربی کے گہرے اثرات ہیں لہذا اہل زبان کے ہاں کئی معاملات میں تلفظ اور الفاظ کے معاملے میں اختلاف رہا ہے البتہ اس بات سے میں مکمل طور پر متفق ہوں کہ عوام کی زبان میں جو آلائشیں در آئی ہیں انہیں دور کیا جانا ضروری ہے جن میں انگریزی الفاظ کا حد سے زیادہ استعمال‘ہجوں کی پہچان‘املاء کی تلفظ کی درستگی اب اہل زبان اور خواص کے نزدیک لفظ درستی ٹھیک ہے جبکہ عوام میں درستگی کو قبولیت حاصل ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :