
اُردو زبان اور ”اہل علم“
پیر 25 جنوری 2021

میاں محمد ندیم
(جاری ہے)
یاد ماضی ہے عذاب یارب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا
جب تک سانسیں چل رہی ہیں ماضی سے جان نہیں چھوٹ سکتی ”ہم کھڑے ہیں وہیں تم نے چھوڑا تھا جہاں“نہ ہم وہ رہے نہ زمانہ‘رہا شہر تو یہ بھی اجنبی ہوگیا ہے ہمارے لیے اندرون کی گلیوں میں جائیں تو کچھ کچھ اپنا سا لگتا ہے وگرنہ موئی ترقی ایک خوبصورت شہر کو کھاگئی ہے۔موضوع کی طرف آتے ہیں ورنہ پڑھنے والے کہیں گے ”بابا“اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گیا ہے تحریری اُردو طویل عرصے تک ”کاتبوں“ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے جو عوام میں مقبول عام ہوئے مگر اہل زبان کے ہاں رانددرگاہ ایک پرانے دوست سے لفظ”آجشبکو“ کو کسی کاتب کا کارستانی بتایا مگر اس زمانے کے میں رائل پارک میں فلمی بورڈ بنانے والے ایک پینٹرکا کہنا ہے یہ کاتب کی کارستانی نہیں بلکہ لکھوانے والے کا اصرار تھا کہ پوسٹرکے سائزکو نہیں بڑھنا دیئے گئے سائزکے اندر رہتے ہوئے ہی سب کچھ کرنا ہے ‘کاتب موصوف پوسٹر ادھورا چھوڑکرناراض ہوکر چلے گئے تو فلم کے تقسیم کار نے دیواروں پر اشتہار لکھنے والے ایک پینٹرکو بلا کر لکھوائی کاکام اس سے کروایا تو اس نے جگہ کی کمی باعث ”آج شب کو “کو ملا کر ”آجشبکو“کردیا جو بعد میں فلمی صنعت میں رواج پاگیا۔تاہم ایسے الفاظ کو اخبار‘جرائدیا کتب میں کوئی پذیرائی نہیں ملی مگر پھر وہ زمانہ بھی دیکھا جب نیوزایڈیٹرغلطی علم میں آنے کے بعد ہانک لگاتا کہ ”جانے دو چھپ کر ٹھیک ہوجائے گا بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں اُردوکی لکھائی کے لیے ”تحتی“کا خاتمہ ہے جس نے بھی سکول میں ”تحتی“لکھی ہوئی ہے وہ ایسی غلطی شاذونادر ہی کرتا ہے تحتی کے فوائد میں املا اور ہجوں کو درست لکھا جانا بھی شامل ہے ادھر ”تحتی “کا زمانہ ختم ہوا ادھر زبان کی شامت آگئی آج اُردو نہ تیتر ہے نہ بٹیر ۔یہ ازلی حقیقت ہے کہ زبانیں ارتقائی عمل سے گزرتی رہتی ہیں مثال کے طورپرآج کے دور میں امیر خسرو‘قلی قطب شاہ‘میراں ہاشمی اور ولی دکنی کی شاعری اور نثر پڑھنے اور سمجھنے والے کہاں سے لائیں؟ لکھنو یا دلی میں شاید کچھ باقی ہوں مگر پاکستان میں یہ ناممکن ہی لگتا ہے آخررجوع انہی کتب سے کرنا پڑے گا جنہوں نے ان کی نثر کو عوامی زبان دی ہر زبان خواص اور عوام کے لیے الگ الگ رہی ہے سو‘دو سو سال پرانا ادب آج خواص کے لیے رہ گیا ہے عوام کو اس کی سمجھ نہیں تو میں ان احباب سے متفق نہیں جو خواص کی زبان کو عوام پر مسلط کرنے کی ایسی مشق کررہے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں ۔علمی قابلیت کا رعب ڈالنے کے لیے آج ٹی وی چینلوں اور اہل صحافت میں سے کچھ احباب اس کام میں لگے ہیں زبانوں کا ارتقاء معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے خلیل جبران کا مخاطب عام لوگ تھے تو اگر وہ قدیم لبنانی یا عربی کو ذریعہ اظہار بناتا تو کیا اسے وہ پذیرائی ملتی جو اس کے حصے میں آئی؟پاکستان کے عوامی شعراء حبیب جالب ہوں یا ساغرصدیقی ان کے مخاطب عوام تھے خواص تو چوباروں سے نہیں اترتے اسی طرح انشاء کی شاعری ہو یا نثر اگر وہ عوام کی بجائے خواص کی زبان استعمال کرتے تو آج انہیں کتنے لوگ جانتے؟پطرس بخاری اور احمد فرازکے کتنے چاہنے والے ہوتے ؟دنیا کے انقلابی دانشور‘فلسفی اور شاعر عوامی زبان میں لوگوں سے مخاطب ہوئے وہ ماضی قریب کا انقلاب ایران ‘فرانس یا روس ہو‘ پذیرائی عوامی زبان کو ملی ۔یہاں تک کہ تحریک آزادی ہند کے لیے مولانا حسرت موہانی جو رسالہ جاری کیا وہ ”اُردو معلی“میں تھا حالانکہ شاعری میں وہ اصلاح تسنیم لکھنوی سے لیتے تھے جو احباب غلط العام اور غلط العوام کے پیچھے پڑے ہیں وہ تو خود اپنے سکرپٹ لکھنے والوں سے کہتے ہیں کہ کچھ غلط العام اور غلط العوام الفاظ یا فقروں کو ان کے معنی سمیت فراہم کریں تاکہ وہ اپنے پڑھنے والوں یا ناظرین پر اپنے ”علم وفضل“کا رعب ڈال سکیں اگر آپ اتنے ہی زبان داں ہیں تو ہمت کریں اور کچھ مضامین اور پروگرام مکمل طور پر دہلوی اُردو یا ”دبستان لکھنو“ میں کرکے دیکھ لیں پانچویں پروگرام پر ٹی وی والے نکال باہر کریں گے کہ بھائی لوگ دیکھیں گے ہی نہیں تو اشتہار کہاں سے ملیں گے۔ ہمارے اساتذہ فرمایا کرتے تھے آسان ‘سہل اور عام فہم زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانا مگر ہمارے خانے نہ بیٹھی اُردو ادب میں ایم اے کا زعم تھا ایک مضمون جو لکھا تو بلاوا آگیا کہ میاں ہمارے اخبار کو پرائمری پاس سے لے کر پی ایچ ڈی پروفیسر تک نے پڑھنا ہے لہذا مضمون ہو یا خبر زبان ایسی ہو جو دونوں کی سمجھ میں آئے‘الفاظ کا چناؤ ہم نے ”دور مشقت “میں سیکھا زبان کی حفاظت ضروری ہے مگر یہ کام ہمیشہ سے خواص کا رہا ہے عوام ہر زبان میں اپنے راستے خود بناتے آئے ہیں اُردو کا ایک مسلہ اس پر فارسی‘ترکی اور عربی کے گہرے اثرات ہیں لہذا اہل زبان کے ہاں کئی معاملات میں تلفظ اور الفاظ کے معاملے میں اختلاف رہا ہے البتہ اس بات سے میں مکمل طور پر متفق ہوں کہ عوام کی زبان میں جو آلائشیں در آئی ہیں انہیں دور کیا جانا ضروری ہے جن میں انگریزی الفاظ کا حد سے زیادہ استعمال‘ہجوں کی پہچان‘املاء کی تلفظ کی درستگی اب اہل زبان اور خواص کے نزدیک لفظ درستی ٹھیک ہے جبکہ عوام میں درستگی کو قبولیت حاصل ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میاں محمد ندیم کے کالمز
-
لاہور میں صحافیوں کا تاریخی میلہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
الوداع۔(پہلا حصہ)
جمعرات 10 فروری 2022
-
عمران خان ناموس رسالت ﷺ اورکشمیر کے وکیل
پیر 31 جنوری 2022
-
آلودگی میں لاہور کا ”اعزاز“
بدھ 3 نومبر 2021
-
ریاست مدینہ :پاکستان‘نظام اور حکمران۔ قسط نمبر2
ہفتہ 23 اکتوبر 2021
-
ریاست مدینہ:پاکستان‘نظام اور حکمران۔قسط نمبر1
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
وزیراعظم عمران خان کے نام کھلا خط
منگل 12 اکتوبر 2021
-
معاشی بدحالی کا شکار پاکستان
جمعہ 8 اکتوبر 2021
میاں محمد ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.