اعتراف جرم

اتوار 28 فروری 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

آج کے کالم کا عنوان اس سے بہتر کوئی ملا نہیں کیونکہ ایک شہری کی حیثیت سے میں اپنے جرم کو قبول کرنا چاہتا ہوں میری معلومات کی حد تک کتابوں میں مجھے شہری ہی لکھا کہا اور پکارا جاتا ہے مجھے کہا گیا بادشاہت آمریت کی طرح مطلق العنان ہوتی ہے میں مان گیا مجھے بتایا گیا کہ قبل ازمسیح میں ایک قدیم یونانی نظام حکومت رائج تھا جس میں شہری ریاست میں سانجھے دار ہوتے تھے ۔

میں نے اپنے دین تک سے غداری کی اور محض14سوسال کے جدید طرزحکومت کی بجائے”سانجھے داری“کے فریب میں بھی آگیا پھر مجھے کہا گیا کہ سب شہریوں کا تو پارلیمان میں جانا ممکن نہیں لہذا تم اپنے نمائندے منتخب کرکے بجھواؤں وہ تمہاری نمائندگی کریں گے۔یہاں میں فریب کھا گیا مگر اس فریب کا علم مجھے کئی دہائیوں بعد ہوا کہ بادشاہوں یا آمروں سے مجھے ڈرا کر ”بی جمہوریت “کو مسلط کیا گیا تھا اس میں تو سینکڑوں ”بادشاہ“اور آمر ہیں مگر میں خاموش رہا کیونکہ میں عام شہری ہوں ۔

(جاری ہے)

عام شہری سے یاد آیا اس نظام دو ”ڈکشنریاں“ہیں ایک عوام کے لیے دوسری خواص کے لیے مجھے جو تھمائی گئی وہ عوام والی تھی میں اس سانجھے داری اور ”شہری “ہونے کے احساس سے نہال تھا مگر پھر مجھے ”خواص“والی ڈکشنری کا معلوم ہوا تو میری روح تک کانپ گئی کیونکہ میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا ہوا تھا کہ میں اپنا فریاد کا حق بھی کھودیا تھا اصل میں عوام کی ڈکشنری میں ”شہری “تھا تو ”خواص“والی میں ایک ایسا غلام جو ایک بڑی جیل میں رہتا ہے جسے ”ملک“کہتے ہیں وہ ایک ”جیل“سے دوسری میں جانے کی خواہش کرئے تو اس کے لیے خصوصی پروانے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔

میں اس ظلم پر خاموش رہ کر ”ظلم “کا حامی بنا رہا یہی میرا جرم ہے زندگی میں آندھیاں آتیں اور میرے گھروندے اجاڑتی رہیں مگر میں ظلم کا نہ صرف حامی رہا بلکہ خاموش رہ کر ظلم سہتا رہا کبھی بچپن میں پڑھی کتابوں کے الفاظ ذہن میں آتے کہ ظلم سہنا بھی تمہیں ظالم کے برابر کردیتا ہے مگر میں اپنے اندر کی آوازوں کو دباتا رہا کیونکہ ”میرے آقا“جن کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچی ہے مجھے دو وقت کی روٹی دیتے میں اس روکھی سوکھی پر بھی کلمہ شکر کہتا ۔

پھر میری زندگی میں ”سونامی“ آیا ایسا طوفان جس سے میں نے نجانے کتنی امیدیں باندھا لی تھیں مگروہ تو سب کچھ بہا کر لے گیا جن بہاروں کے خواب دکھائے گئے تھے تو سب سراب نکلے میں اور مجھ جیسے بائیس کروڑغلام معافی چاہتا ہوں ”شہریوں“کے ذمہ قرضوں کی تفصیل سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ جتنے میں میرے ”آقاؤں“نے مجھے گروی رکھا میں نے تو اتنی رقم زندگی میں کبھی ایک ساتھ نہیں دیکھی میں کیا میری طرح بہت سے ”شہریوں“کا یہی حال ہے پھر مجھے پتہ چلا کہ میں ہی نہیں میری جھونپڑیاں بھی ”آقاؤں “نے ساہوکاروں کے ہاں گروی رکھ چھوڑی ہیں۔

میں نے احتجاج کرنا چاہا تو میری زبان بند کردی گئی میں نے لکھنا چاہا میرا قلم توڑدیا گیا اب میں ”جمہوریت“کا اصل بھیانک اور مکروہ چہرہ دیکھ رہا ہوں مگر اب بہت دیر ہوچکی ہے میں اپنے” انگوٹھے“کاٹ کر آقاؤں کو دے چکا ہوں جنہیں وہ جہاں چاہتا ہے اپنی مرضی سے میرے نام کے سامنے لگا دیتا ہے جو میرے نمائندے بن کر پارلمیان میں گئے تھے وہ ساہوکاروں کے ”دلال“نکلے ۔

میں نے انصاف کی دہائی دی تو معلوم ہوا عدل گاہوں میں ڈیڑھ سو سال پرانے بت رکھے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں مگر آقاؤں پر ان کی نظرکرم رہتی ہے میں آج ایک وقت میں بھی آدھی روٹی کھاتا ہوں زمانے بیت گئے دووقت کی نصیب ہی نہیں ہوئی جو کماتا ہوں ”آقا“کے ہرکارے یہ کہہ کر چھین لیتے ہیں کہ ساہوکاروں کا قرض چکانا ہے میں چیختا ہوں کہ میں نے کوئی قرض لیا نہ میں نے کسی ”میگا پراجیکٹ“کی فرمائش کی تھی مگر میری کوئی سنتا ہی نہیں ۔

میں نیم خواندہ ہی سہی مگر ان سے جواب مانگتا ہوں کہ مجھے کسی جگہ میرے انگوٹھے کا نشان دکھادو کہ میں ”ساہوکاروں“سے سود پر قرض اٹھایا ہے یا کسی ”میگا پراجیکٹ “کی فرمائش کی ہے مگر ہرکارے مجھے ٹھڈے مارتے ہیں اب جو کماتا ہوں اس میں سے لوٹ مار کر بعد اتنا ہی بچتا ہے کہ مشکل سے دن میں آدھی روٹی کھا سکوں بیمار ہوجاؤں تو ”آقاؤں “کے بنائے سرکاری شفاخانوں میں علاج سے قاصر ہوں کیونکہ اس کے لیے سفارش چاہیے اور اگر سفارش نہیں ہے تو آقا کے ہرکاروں کو ”نذر“دینا پڑتی ہے تو نکڑپر بشیرے کی دوکان پر چلاجاتا ہوں بشیرا سرکاری شفاخانے میں صاف صفائی کیا کرتا تھا اب اتنے سالوں کا ”تجربہ“لے کر نکلا ہے کہ بڑے بڑے طبیب اس کے سامنے نہیں ٹکتے اب اس نے اپنی دوکان اور گھر کے باہر ڈاکٹر بشیراحمد لکھوالیا ہے ۔

جن اسمبلیوں میں میرے نمائندے بیٹھتے ہیں نہ میں ان کے سامنے سے نہیں گزرسکتا ہوں اور نہ ہی ان کے محلات کے سامنے سے مجھے تو ان کی شکلیں بھی بھول چکی ہیں شاید اگلے چناؤ میں نظرآجائیں کسی اور جماعت کے جھنڈے اٹھائے” صاحب لوگوں“کے بنگلوں پر جائیں تو چوب دار دھتکار دیتا ہے ہر بار کہتا ہے صاحب اسلام آباد گئے ہیں ”سونامی“کے بعد تو ”صاحب “اسلام آباد میں ہی رہتے ہیں ۔

میرے گھر کے قریب ایک بڑا سا زمین کا ٹکڑا تھا کچھ سال پہلے معلوم ہوا کہ یہ جگہ بچیوں کی درس گاہ کے لیے ہے جو پہلے ”صاحب“تھے ہمارے وہ ”آقاؤں“کے بڑے لاڈلے تھے اب سامنے ہی ان کے رشہ داروں کے محلات تھے بچیوں کے سرکاری درس گاہ انہیں ”محمل“میں ٹاٹ کا پیوند محسوس ہوئی تو ”آقاؤں“نے اس جگہ پر ”صاحب لوگوں“کا کلب بنانے کا اعلان کردیا میرا بہت چیخا چلایا مگر میرے ساتھ آوازملانے والا کوئی نظر نہ آیا پھر آقا بدلے تو میں نے نئے آقاؤں سے درخواست کی تین سال ہونے کو آئے انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ محکمے سے معلوم کرسکیں کہ درس گاہ کی جگہ کو کلب میں کیسے بدلا گیا ہمارے ”صاحب“خیرسے وزیرہیں میں نے انہیں درخواست کی مگر شاید ایک ”غلام“کو جواب دینا ان کے شان کے خلاف رہا ہوگا اسی لیے تو دو سال سے اپنی چھٹی کے جواب کا منتظر ہوں ۔

میں قاضی القضاةسے اپیل کی انہوں نے بھی کان نہیں دھرے میں نے اپنے گرد کے ”شہریوں“کو پکارا وہ خاموشی سے گزرگئے وقت کی دھول پڑتی گئی اب کلب کی عمارت مکمل ہونے کو ہے تو سوچتا ہوں مجھ جیسا ”نیم ناخوانداہ“کو ضرور سمجھنے میں بھول ہوئی بھلا بچیوں نے پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے اب گھر کے پیچھے والی گلی میں بھی بچیوں کے ابتدائی درجات کے مدرسے کی جگہ1980سے خالی پڑی ہے زمین خریدتے وقت میں نے ایک رقم اداکی تھی جس میں مجھے بچوں کی درس گاہیں بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا مگر درس گاہیں تو دور اب ان زمین کے ٹکڑوں پر کئی ”صاحب“لوگ چھپٹے کوتیار بیٹھے ہیں۔

آج کل روزانہ کیا گھنٹوں کے حساب سے تیل‘بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں مگر نہ صاحب لوگوں کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ بابوؤں کے ‘سنا ہے شہر اقتدار میں کل سے جشن منایا جارہا ہے کہ ”گرے لسٹ“میں ہمارا نام عالمی ساہوکاروں نے قائم رکھنے کا اعلان کردیا ہے مجھے نہیں پتہ گرے لسٹ کس بلا کا نام ہے مگر ایک پڑھا لکھا بابو کہہ رہا تھا کہ ”وڈے خان صاحب“بھی خوش ہیں اور بابولوگ بھی تو میں نے کہا اس میں حیرانی والی کیا بات ہے اگر کوئی خوشی کی بات ہے تو (ہمارے آج کل کے آقا) خان صاحب کے ساتھ بابو لوگ بھی خوشیاں منارہے ہیں تو کہنے لگا ”آقا“لسٹ میں نام برقراررہنے پر خوشیاں منارہے ہیں حالانکہ ان کے وزیراور وہ خود دعوے اور یقین کے ساتھ اس سے نکلنے کی تسلیاں دے رہے تھے ہم ”شہریوں“کو اور بابو لوگ اس پر خوشیاں منارہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سے گھسیٹ کر واپس اسی گڑھے میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کی نوید یں تین سال سے سن سن کر ہم نہال ہورہے تھے ۔

اب آقاؤں کے بھی آقا ہوتے ہیں اور بڑے آقا ساہوکاروں کے غلام ہیں اسی گورکھ دھندے کا نام ”جمہوریت“ہے مکڑی کا ایسا جالا جس میں ”شہری“مکھی ‘مچھر کی طرح پھنس جائیں تو مرکر ہی جان چھوٹتی ہے ‘بات بابو لوگوں کی آگئی تو یہ اتنے وفادار ہیں کہ انہوں نے 72سالوں میں اپنی گوری چمڑی والے ”آقاؤں“کی ایسی تابعداری کی ہے جس کی نظیردنیا کی تاریخ میں بھی شاید کہیں نہ ملے ۔

پولیس ہو یا عدل گاہیں‘ انصاف ہو یا ”شہری“حقوق غرض کہ کسی بھی محکمے کا کوئی بھی قانون نکال کر دیکھ لیں اگر وہ گوری چمڑی والے آقاؤں (جن سے ہم 72سال پہلے آزادی حاصل کرنے کے دعویدار ہیں)کا بنایا ہوا نہ نکلے تو ناچیزخطاوار‘یقین نہیں تو پچھلے قاضی القضاة ثاقب نثار صاحب کے وہ الفاظ نکال کر پڑھ لیں جو انہوں نے ایک مقدمے کے دوران کہے تھے کہ ”ہمیں پونے دوسوسال پرانے ہتھیاروں کے ساتھ اکیسویں صدی میں لڑنے کو کہا جاتا ہے“تو اس وقت بھی انہیں چھٹی لکھی تھی کہ صاحب ایسی بے بسی سے بات مجھ جیسا”شہری“کرئے تو سمجھ آتا ہے آپ تو صاحب اختیار ہیں بیان دینے کی بجائے حکم جاری کریں مگر حسب سابق کوئی جواب نہیں آیا۔

قاضی ہوں ‘جرنیل یا بابو لوگ ان کو درد ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہی درداٹھتا ہے آج تک کوئی استعفی دے کر باہر نہیں آیا ریٹائرہونے کے بعد ان کی ”المناک“داستانوں پر مشتمل کتابیں اورمضامین پڑھیں تو ان سے زیادہ آپ کا ہمدرداور غم خوار کو ئی نہیں لگتا ‘چلوصاحب مان لیا آپ کے ضمیر نے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہی کروٹ لی اور آنکھیں مل کر دیکھا کہ آپ ”کرسی“ پر نہیں ‘نوکرشاہی ہونے کی وجہ سے شاید اسے فرصت ہی نہیں ملی ہوگی جاگنے کی تو جو پنشن اور مراعات لیتے ہیں ان سے دستبرداری کا اعلان کردیں جہاں مرضی گھوم لیں ایک بھی نہیں ملے گا۔

ریٹائرڈشدگان کو اب ایک اور مشغلہ مل گیا ہے کہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر فلسفے جھاڑو ‘کوئی دین سکھا رہا ہے‘کوئی دنیا میں کامیاب زندگی کے ٹوٹکے بتا رہا ہے تو کوئی اپنی ملازمت کے دوران پیش آنے والے قصے اس اندازمیں سنتا ہے کہ سننے والوں کی آنکھیں بھر آویں کہ بابو اگر فرشتہ نہیں تو اس کے قریب کی کوئی شے ضرور ہے میں سوچتا ہوں کہ ایسے فریادیوں کی کہانیاں لاؤں جو ان بابوؤں کے” درباروں“ میں اپنے جائزحق کے لیے ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرگئے‘جاتے جاتے مملکت خداداد میں ان کے بارے میں ایک خیال جو ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ ایماندار بابو ساری زندگی کسی کا جائزکام بھی نہیں کرتا جبکہ ”نذرنیاز“والے ناجائزبھی کرگزرتے ہیں تو صاحب آپ کی ایسی بزدل ایمانداری کو چاٹنا ہے جو کسی مظلوم کو اس کا حق نہ دلا سکے؟ باقی زندگی رہی تو پھر سہی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :