پی ٹی آئی حکومت کا براڈ شیٹ سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن رپورٹ تک کا سفر

ہفتہ 30 جنوری 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

ابھی چند دن قبل سابق چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید امجد نے برطانوی عدالت میں بتایا کہ براڈ شیٹ نے پاکستان سے لوٹا گیا پیسہ واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کیا، سابق پراسیکیوٹر جنرل نیب فاروق آدم خان کا بیٹا براڈ شیٹ کے پارٹنر کے لیے کام کر رہا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید امجد نے کہا کہ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ متعلقہ وزارتوں سے منظوری کے بغیر کیا گیا، براڈ شیٹ نیب کی دی گئی معلومات کو ہی ہدف کے خلاف استعمال کرتا رہا۔


ان کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ نیب کو کوئی مفید معلومات دے سکا نا پیسہ واپسی میں مدد کر سکا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید امجد نے اپریل 2000 میں امریکی ریاست کولوراڈو میں براڈ شیٹ کے دفتر کا دورہ کیا تھا۔سابق چیئرمین نیب نے براڈ شیٹ کے دفتر کے دورے کے بعد ان سے معاہدہ کیا تھا، دورے کے دوران پاکستانی وفد کو جعلی معلومات کی بنیاد پر پر یزینٹیشن دی گئی تھیں۔

(جاری ہے)


اس کے علاوہ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے کا مسودہ تیار کرنے والے نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم نے اگست2010ء میں لندن ہائی کورٹ میں حلفیہ بیان دیا تھا کہ نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کے پاس ”ناجائز طریقے سے جمع کردہ اثاثوں“ کی مالیت تقریباً ایک ارب ڈالر ہے،لیکن پانچ سال بعد جولائی2015ء میں اسی پراسیکیوٹر جنرل نے یوٹرن لیتے ہوئے اسی عدالت کو بتایا کہ اپنے 2010ء کے حلف نامے میں اس نے جو اعداد و شمار پیش کئے تھے وہ ”قیاس آرائیوں اور افواہوں“ پر مبنی تھے اور یہ بات عدالتی دستاویزات سے سامنے آئی ہے۔


فاروق آدم ہی وہ شخص تھے جو جنرل امجد، طارق فواد ملک، جیری جیمز، ڈاکٹر پیپر ولیمز اور غضنفر علی کے ہمراہ براڈ شیٹ معاہدے کا مرکزی کردار سمجھے جاتے ہیں،انہوں نے لندن ہائی کورٹ میں اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اگر نیب براڈ شیٹ کے ساتھ اپنا معاہدہ منسوخ نہ کرتا تو براڈ شیٹ یہ رقم(ایک ارب ڈالر) ریکور کر سکتی تھی، ٹھیک پانچ سال بعد ثالث سر انتھونی ایونز کے روبرو فاروق آدم نے اپنے دعوے سے روگردانی کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 2010ء میں اپنے حلف نامے میں جو اعداد وشمار دیئے وہ محض قیاس آرائیوں پر مبنی تھے انہوں نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اُن کے نئے حلف نامے کو پرانے حلف نامے کی جگہ تبدیل کر دیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُنہیں اعداد و شمار کے بارے میں براہِ راست کوئی معلومات نہیں۔
 ان دو مرکزی کرداروں کے گندے کرتوتوں کے علاوہ کچھ سوالات پی ٹی آئی کی حکومت سے بھی ہیں کہ براڈ شیٹ کیس میں فنانس ڈویژن کی منظوری کے بغیر کروڑوں روپے کیوں دیے، اور پھر ڈیل کرنے کی کوشش کس نے کی؟ ‏براڈ شیٹ سے کمیشن مانگنے والے سرکاری لوگ کون تھے؟
پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے 48 لاکھ شہزاد اکبر کو کیوں ادا کیے گئے؟
کس کے کہنے پر لندن ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں اتنی زیادہ رقم رکھی گئی؟
شہزاد اکبر نے جو اربوں روپے مختلف فرمز کو ادا کیے کیا ان کا آڈٹ کروایا گیا؟ ‏کیا قومی خزانے سے چھ ارب روپے کی ادائیگی کسی کو نوازنے کے لئے کی گئی؟
سابق آرمی چیف جنرل مشرف جن کے حکم پر براڈ شیٹ کا معاہدہ ہوا ان سے کون سوال پوچھے گا ؟
لندن ہائیکورٹ کے فیصلہ سے دو ماہ قبل پیسہ لندن ایمبیسی کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروانے والوں نے کتنا کمیشن کھایا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں گھوم رہے ہیں۔


ابھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے " کرپشن کے حوالے سے مختلف ممالک " کی رینکنگ جاری کی جس میں پاکستان 120 سے بڑھ کر 124 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ نیب اور موجودہ حکومت کے وزیر مشیر کرپشن کو کم کرنے کا آلاگ لاپ رہے تھے لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پاکستان میں کرپشن زیادہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ‏ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیکس کے مطابق پاکستان دو سال میں سات درجے نیچے گر گیا۔

2013ء پیپلز پارٹی کے دور میں 127ویں نمبر پر تھا۔ 2018ء مسلم لیگ ن کے دور میں 117 ویں نمبر پر تھا جبکہ 2019 تحریک انصاف کے دور میں 120 ویں نمبر پر اور 2020 تحریک انصاف کے دور میں 124 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ موجودہ حکومت کا کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ اپنی موت آپ مر گیا ہے جب تک یہ اپنے کرپٹ زدہ وزیروں، مشیروں کا احتساب نہیں کریں گے تو پاکستان سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :