"فواد حسن فواد" ایک حقیقت اور بہادری کا نام

بدھ 30 جون 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان جناب فواد حسن فواد صاحب ایک ایماندار سول سرونٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب اور شاعر کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ فواد حسن فواد 14 جنوری 1960 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے یونیورسٹی آف پنجاب سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایل- ایل-ایم کی ڈگری کے حصول کے لیے کنگ کالج لندن میں زیر تعلیم رہے۔

فواد حسن فواد صاحب نے اپنے کیریئر کا آغاز بلوچستان سے کیا جب وہ 1989ء سے 1993ء تک کوئٹہ اور حب میں اسسٹنٹ کمشنر کی سیٹ پر تعینات رہے۔ اس کے بعد آپ 1994ء سے 1997ء تک ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور لاہور رہے، اس کے علاوہ آپ نے پرنسپل سٹاف آفیسر ٹو پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان اور ڈپٹی سیکرٹری ٹو چیف سیکرٹری بلوچستان کی ذمہ داریاں بھی سر انجام دیں۔

(جاری ہے)

اس کے بعد آپ 1998ء سے 2000ء تک ڈپٹی سیکرٹری اور پرنسپل سٹاف آفیسر ٹو چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے پر تعینات رہے۔ اس کے بعد آپ 2001ء سے 2002ء تک ایڈیشنل سیکرٹری، جنرل ایڈمنسٹریشن پنجاب کے عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد آپ 2005ء سے 2006ء تک آپ سنئیر ایڈوائزر گروپ ٹو جے ایس گروپ اور ایگزیکٹو انچارج انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ڈویژن ٹو بینک الفلاح لمٹیڈ کے عہدوں پر فائز رہے۔

اس کے بعد آپ 2008ء سے 2010ء تک سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس پنجاب کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد 2010ء سے 2011ء تک سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد 2011 سے 2012 تک سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے عہدے پر فائز رہے، 2012ء سے 2013ء تک آپ سیکرٹری ٹو چیف منسٹر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے بعد ازاں آپ جوائنٹ سیکرٹری اکنامک افیئرز ڈویژن کے عہدے پر کام کرتے رہے، اس کے بعد آپ 2015ء سے 2018ء تک پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے اور اس کے بعد ڈائریکٹر جنرل سول سروسز آکیڈمی کے عہدے پر تعینات ہوئے اور 5 جولائی 2018ء کو نیب کی گرفتاری میں ریٹائرڈ ہوگئے۔


فواد حسن فواد اپنے دور کے انتہائی ایماندار، شریف اور محنتی سول سرونٹ کے طور پر جانے جاتے تھے، جب یہ پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم پاکستان تھے تو تمام لوگ انہیں ڈی فیکٹو وزیراعظم کہتے کیونکہ انہیں ہر ایشو کو نہایت ہی احسن انداز سے حل کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ بدقسمتی سے فواد حسن فواد صاحب کو انکی ملازمت کے دوران بھی بڑی مشکلات کا سامنا رہا، بہت سے سیاستدان اپنے ذاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ان سے شدید ناراض ہوتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے فرائض میں غفلت نہیں برتی۔

نیب نے فواد حسن فواد صاحب کو 6 جولائی 2018ء کو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے کیس میں گرفتار کیا، اس کے علاوہ احد چیمہ بھی کئی ماہ نیب کے کیسز میں بیگناہ جیل میں بند رہے ہیں، جب ان دو محنتی سول سرونٹس کے خلاف کاروائیاں کی گئی تو تمام بیوروکریٹس کے دلوں میں ایک ڈر اور خوف سا برپا ہوگیا جس کے بعد تمام سنئیر افسران نے حکومتی جائز کاموں کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔


فواد حسن فواد صاحب 17 ماہ بیگناہ نیب گردی کا سامنا کرتے رہے، ان مراحل کے دوران انکی فیملی کو بہت سی تکالیف سے گزرنا پڑا، جب لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے فواد حسن فواد کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی تو معزز ججز نے نیب کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ملزم کے کون سے اثاثے ان کے نام پر ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہی تو ہمارا کیس ہے کہ ملزم کے نام پر کوئی اثاثے نہیں بلکہ اثاثے کمپنی کے نام پر ہیں، جس کے ڈائریکٹرز میں ان کی اہلیہ رباب حسن اور بیٹے شامل ہیں۔


نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ راولپنڈی میں ایس ایس آر ایل کے نام سے رجسٹر یہ کمپنی امریکہ میں پاکستانی سفیر جہانگیر صدیقی کے ساتھ بھی کام کرتی تھی۔ ان کی دوسری کمپنی فہمیدہ یعقوب کے نام سے رجسٹر ہے، اس میں بھی رباب حسن اور وقار حسن ڈائریکٹرز تھے۔
جسٹسں طارق عباسی نے استفسار کیا کہ ’جن کے نام سب کچھ ہے انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟جبکہ جس کے نام کچھ بھی نہیں اسے گرفتار کیا ہوا ہے؟‘
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’جس کمپنی کے نام سب کچھ ہے اس کے اکاؤنٹس میں کچھ بھی نہیں۔


عدالت نے استفسار کیا کہ تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ فواد حسن فواد کے اکاؤنٹس ہیں؟
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’یہ تو ملزم پارٹی بتائے گی۔‘
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیوں بتائیں گے؟ نیب پراسیکیوٹر کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ کو تیاری کے ساتھ آنا چاہیے تھا اور اگر آپ تیار نہیں تھے تو وقت مانگ لیتے۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے فواد حسن فواد کی ضمانت کا حکم جاری کردیا۔


فواد حسن فواد صاحب کیونکہ ایک شاعر بھی ہیں تو انہوں نے کیمپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر "مقبوضہ کشمیر" کے مسلمانوں کے لیے ایک نظم لکھی جس کو پورے پاکستان میں بہت پسند کیا گیا، وہی نظم میں آپکی بصارت کی نظر کرتا ہوں کہ:
!سنو مودی
مرے کشمیر نے آزاد ہونا ہے
تمہیں برباد ہونا ہے
!سنو مودی
تم اِس تاریخ میں
اک ویسٹ پیپر سے زیادہ
کُچھ نہیں تھے
کُچھ نہیں ہو
کُچھ نہیں ہوگے
سنو! یہ فیصلہ میرا نہیں ہے
یہ مستقبل کی وہ تصویر ہے
جس کو بہر صورت
تمہارے جبرو استبداد کی دیوار پر
تحریر ہونا ہے
دِنوں کی بات ہے اب تو
مرے کشمیر نے آزاد ہونا ہے
تمہیں برباد ہونا ہے
!سنو مودی
اگر فوجیں
جزیرے، بستیاں یا پھر گلی کوچے
فتح کرنے کا گُر رکھتیں
تو غاصب قو تیں مل کر
نہ جانے کتنی ساری بستیاں تسخیر کر لیتں
مری دُنیا کے نقشے کو یونہی زنجیر کر دیتیں
بھری آبادیاں محصور کر کے
نوکِ خنجر پر
اِنہیں کشمیر کر دیتیں
مگر تم جانتے ہو
ایسا ممکن ہو نہیں سکتا
مرے کشمیر کو آزاد ہونا ہے
اُسے محکوم کرنے کی
تری مذموم کوشش کو
دلِ ناشاد ہونا ہے
تمہیں برباد ہونا ہے
!سنو مودی
مرے کشمیر نے آزاد ہونا ہے
میری دعا ہے کہ الله تعالٰی فواد حسن فواد جیسے جتنے بھی سول سرونٹس ہیں انکو ملک کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور انہیں ہر مشکل وقت سے محفوظ رکھے۔

آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :