آزادانہ صحافت ایک گولی کے دہانے پر

جمعہ 28 مئی 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہر چیز سیلیکشن پہ چل رہی ہے۔ پہلے الیکشن سیلیکٹ کیا گیا، پھر مہرے سیلیکٹ کیے گئے، مہروں نے آگے مہرے بھرتی کر لیے یوں ایک چین کے ساتھ اس ملک کو اندھیرے کی طرف لیجانے کی مجموعی طور پر کوششیں جاری ہیں۔ آج ملک کے چوتھے ستون " صحافت " کو ہر طرف سے بندوق کی گولیوں نے گھیرا ہوا ہے، سیلیکٹرز اور انکے مہرے سیلیکٹڈ صحافت نہ کرنے والوں کو کبھی اغواء کر لیتے ہیں، کبھی گولیوں کی برسات کرکے جسم لہو لہو کر دیتے ہیں، کبھی شمالی علاقہ جات کی سیر کے نام پر بندوں کو غائب کیا جاتا ہے، کبھی پارک میں چلتے ہوئے پیچھے سے پستول کی گولی چلا کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی رات کے وقت آزادی صحافت کے ایک معمار کو اس کے فلیٹس میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ ساری صورتحال ان دنوں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بنی ہوئی ہے۔ ان تمام حملوں کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کا امیج کس طریقے سے پیش کیا گیا ہو گا؟ وہ آزادی صحافت کے معمار بخوبی جانتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے اچھے امیج کو ایک آزاد خیال صحافی کے علاوہ کوئی اور نہیں پیش کر سکتا۔ ہمارے ملک میں سچ برداشت کرنے کی عادت دن بدن ختم ہوتی جارہی ہے۔

اگر کوئی صحافی کسی حکومتی عہدیدار کی خامیوں کو اس کے سامنے رکھتا ہے تو بجائے اس کو ٹھیک کرنے کے اس صحافی کو غدار اور دہشت گرد ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسی عدم برداشت کی وجہ سے ہماری سیاست گندی ہو گئی ہے، ہمارا معاشرہ گندہ ہوگیا ہے، لوگ ایک دوسرے کو ایک سیکنڈ کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پہلے ایک محاورہ مشہور تھا کہ پرانے زمانے کے لوگ ایک دوسرے کے پاؤں سے کانٹے نکالتے تھے اور آج کے دور میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں۔

یہ ساری عدم برداشت ان میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی وجہ سے رونما ہوئی ہے جو بیرون ممالک سے ایک خاص ایجنڈے کے طور پر امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی عزت دار اور شریف النفس شخص اس حکومت کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ اس ملک میں ادارے قیام پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دینے والے قاضی عیسیٰ کے بیٹے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فائز کو غدار وطن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر کا نمائندہ وزیر قانون اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے چکروں میں قانون کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا دندناتا پھر رہا ہے۔

ان آزاد خیال صحافیوں کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ ہمیشہ سچ کو عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ سویلین بالادستی سے لے کر صحافیوں کے سچ بولنے تک ہر شخص نے اپنے اپنے جسم کو لہو لہان کروایا ہے۔ کبھی منہ پر تھپڑ مارنے کا واقعہ پیش آتا ہے تو کبھی گھروں پر گوریلا حملوں کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کونسل کے عہدیداران اور انٹرنیشل جرنلزم کے اداروں کو صحافیوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کے احکامات دینے چاہئیے۔ اگر پاکستان میں اسی طرح قتل و غارت جاری رہی، صحافیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہے تو پاکستان کا امن پسندی کا بیانیہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :