پانامہ پیپرز سے براڈ شیٹ تک کا سفر

جمعہ 22 جنوری 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

03 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس کے اسکینڈل نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس وقت پوری دنیا میں اگر کوئی موضوع سب سے زیادہ زیرِبحث تھا تو وہ پانامہ لیکس تھا۔اس موضوع نے دنیا کے سارے معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم ICIJ نے دنیا بھر کے لاکھوں امیر ترین خاندانوں اور افراد کے پوشیدہ اثاثوں کا انکشاف کیا، ان خاندانوں میں پاکستان کے بہت سے لوگ شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے 01 نومبر 2016 سے روزانہ کی بنیاد پر پانامہ کیس کی سماعت شروع کی اور آخر کار 23 فروری 2017 کو سپریم کورٹ نے تمام دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا، اور پھر 20 اپریل 2017 کو اپنا تفصیلی فیصلہ سنا دیا گیا۔ ان مراحل میں بہت سے پوشیدہ راز لوگوں کو دیکھنے کو ملے کہ جے آئی ٹی میں من پسند افراد کو نامزد کیا گیا اور پھر وٹس ایپ کال کا چرچا رہا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف صاحب کے خلاف سازش جاری تھی، پھر سپریم کورٹ نے کرپشن کی بجائے اقامے پر نواز شریف کو نا اہل کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام باتیں دم توڑ گئیں جن باتوں پہ اس وقت کی اپوزیشن نے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

نواز شریف صاحب سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اپنی سیٹ چھوڑنے کے بعد " ووٹ کو عزت دو " کے بیانیے کے ساتھ عوام میں گئے، جلسے ، جلوس کیے اور کافی حد تک اپنی بات منوانے میں کامیاب رہے، اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت سے کاموں میں ٹانگ اڑائی اور پنجاب حکومت کی انتھک کوششوں سے تعمیر ہونے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال پہ سوموٹو نوٹس لے کر اس کو بند کر دیا اور لوگوں کی تضحیک کرنا شروع کر دی اور بعد میں جب انکوائری کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ ثاقب نثار اپنے بھائی کے کہنے پر کر رہے تھے۔

ایک دفعہ پھر کچھ دن قبل لندن کی عدالت نے براڈ شیٹ کی درخواست پر پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا اور میڈیا پر ایک دفعہ پھر مردہ گھوڑا لندن کی عدالت کے فیصلے کے بعد زندہ ہوگیا۔ یہاں پر براڈ شیٹ کیس کے حوالے سے چند سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں جو پاکستان کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں، وہ بدستور جواب طلب ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ حکومت نے مقامی عدالت کی جانب سے منجمد کئے جانے سے قبل دس لاکھ ڈالرز لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن منتقل کئے جانے کی کوئی وضاحت نہیں کی۔


بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں اور ہائی کمیشنز میں حتیٰ کے چند ہزار ڈالرز بھی فالتو یا اضافی نہیں ہوتے۔جب سفارتی عملے کو ہفتوں تنخواہیں نہیں ملتیں تب ماہانہ رقوم فراہم کی جاتی ہیں، لہٰذا کس طرح تین کروڑ ڈالرز لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود تھے کہ برطانوی حکام آسانی سے رہنے دیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لندن ہائی کورٹ کے فیصلے ہی سے قبل رقم پیشگی لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو چکی تھی جو نا قا بل یقین بات ہے۔


آیا حکومت پاکستان نے پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں دانستہ منتقل کئے تھے تاکہ براڈ شیٹ آسانی سے اپنی رقم حاصل کر سکے جبکہ براڈ شیٹ کا مالک ایک معمر ایرانی انٹیلی جنس افسر بتایا جا تا ہے۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اب ضمنی بجٹ وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر مختص نہیں کیا جاسکتا۔ آیا وزیر اعظم اور کابینہ نے ادائیگی کی منظوری دی تھی۔


اس کے علاوہ مذکورہ رقم کی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں منتقلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل کی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بھی قبل ازوقت زر مبادلہ منتقلی کے لئے اجازت درکار ہو تی ہے، سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ آیا انہوں نے بھی اس کی منظوری دی تھی؟
اس معاملے میں کسی غلط کاری کی صورت میں وزیر خزانہ اور سیکرٹری خارجہ سے وضاحت طلب کی جا نی چاہئے کہ انہوں نے تین کروڑ ڈالرز پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں ڈالنے کی اجازت کیسے دی؟دنیا میں پاکستانی سفارتی مشنز میں اکاؤنٹس سفارتی اکاؤنٹ کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں جینوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہو تا ہے۔


برطانوی حکام ایک سفارتی اکاؤنٹ کو کس طرح ضبط کر سکتے ہیں یا پاکستانی حکومت میں کوئی انہیں اجازت دے سکتا ہے۔بین الاقوامی قانون میں کئی حقیقی اور قانونی سوالات اٹھتے ہیں۔مالی انتظامی طریقہ کار اور مقامی قانون کے حوالے سے بھی حکومت پاکستان سے سوالات کے جوابات طلب ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتی اکاؤنٹ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔


اسے ریاست کا استثنیٰ حاصل ہو تا ہے اور اس کے حکم پر ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ختم نہیں کی جا سکتی جب تک وزیر اعظم اور کابینہ کی اجازت حاصل نہ ہو اور سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ثالثی جج کے فیصلے کو حکومت پاکستان نے عام کیوں نہیں کیا۔ اس کے علاوہ براڈ شیٹ کے سربراہ نے موجودہ حکومت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر پر الزامات لگائے اور رشوت لینے کا الزام بھی لگایا، اور براڈ شیٹ سکینڈل میں چند ایک اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کیس میں آیا کہ سپریم کورٹ پانامہ کیس کی طرح سوموٹو نوٹس لے گی یا پھر لاڈلے اور نیب کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :