بھارت کو سبق سکھانے کا وقت

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 پوری دنیا امن کی ہامی ہے‘ سوائے بھارت کے‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ دنیا میں امن قائم نہیں ہونے دینا‘ جس کے لیے کشمیر کے چپے چپے پر کاری وار کرکے ظلم اور بربریت کے نشان چھوڑ رہا ہے‘ ایک کشمیر ہی نہیں‘ اس کے اندر چھبیس ریاستیں دہلی سرکار کے ظلم کا شکار ہیں‘ اور اس سے آزادی چاہتی ہیں‘ اقوام عالم نے امن کے قیام‘ انصاف اور سماجی ماحول یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ تشکیل دی‘ اکتوبر میں اس کا یوم تاسیس بھی منایا جائے گا‘ مگر اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل نے اپنے قیام سے لے کر کشمیر کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ تاریخ تو یہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہتھیار دیکھا بس اسی کی حمائت کردی‘ اور اس کے لیے ہر قسم کی قرارداد بھی منظور کرلی‘ بھارت بھی شاید اسی لیے سلامتی کونسل کی رکنیت چاہتا ہے …… مگر یہ کام نہیں ہوگا‘ اس کام کے لیے بھارت کو سری نگر‘ بارہ مولا‘ پلوامہ‘ اور کشمیر میں آباد قبرستانوں سے معافی مانگنا ہوگی‘ کشمیر کے عوام کو ان کا حق خودارادیت دینا ہوگا‘ ا س کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کے لیے یہ جائز سمجھی جائے کہ اس کے ظلم ہی اتنے ہیں کہ مستقل طور پر اسے یہ حق اور موقع دیا ہی نہ جائے‘ پاکستان نے بہت اچھا کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کیلئے بھارتی مطالبے کو مسترد کردیاہے‘ عالمی ادارے میں بھارت جیسی فسطائی ریاست کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے نریندر مودی تو سوال اٹھا رہا ہے کہ اسے کتنا انتظار کرنا ہوگا‘ دہلی کو ہمارا جواب یہی ہے اور ہوگا کہ ساری عمر بھی لگے رہو‘ یہ منصب نہیں لینے دیا جائے‘ کیونکہ کشمیری عوام کا سانس بند کرکے عالمی ادارے کی رکنیت مانگنا خود باعث شرم ہے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بہت خوب رد عمل دیا کہ سلامتی کونسل میں بھارت رکنیت نہیں دی جاسکتی اور ہمیں یہ قبول ہے بلا شبہ ہم ایک پر امن ملک کے طور پر‘ عالمی ادارے کی قراردادوں کی حمائت کرنے کے عوض اقوام متحدہ میں اصلاحات چاہتے ہیں سلامتی کونسل میں غیر مستقل ممبران کی توسیع 10 سے 20-21 تک چاہتے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے 193 ممبر ممالک کی نمائندگی یقینی بن سکے لیکن اس وقت دنیا کی نظریں مسئلہ کشمیر پر ہیں بھارت نے کشمیر کا حق مار رکھا ہے بلکہ گزشتہ سال اگست میں خصوصی درجہ ختم کردیا اور اب وہاں مسلم آبادی کا توازن بگاڑرہا ہے‘ سخت پابندیاں اور سخت کرفیو‘ پوری دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بربریت و سفاکیت بڑھ رہی ہے خاموشی اقوام متحدہ کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے اس کے رویے میں تبدیلی نہ آئی تو اس کا حشر بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہو گامودی اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول کیلئے کوشاں ہے اس کی رکنیت اسکے مقدر میں نظر نہیں آتی بھارت فسطائیت کا مرکز بن چکا ہے 26 بھارتی ریاستوں میں ریاستی دہشت گردی کیخلاف آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔

(جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے اقلیتوں کے ساتھ بھارت میں شرمناک سلوک کیخلاف عالمی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہتی ہیں امریکی سینیٹرز کے ایک اہم گروپ نے بھارت میں مذہبی آزادیوں پر ریاستی قدغنوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امریکی حکومت سے فسطائیت کے مرتکب بھارت کیخلاف سخت نوٹس لینے اور بھارت کو اقلیتوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے ستم دیکھیے کہ ایک طرف بھارت میں انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں‘ انصاف کا سر قلم ہورہا ہے‘ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع نہیں ہونے دیا جارہا اور پھول کلیاں مسلی جارہی ہیں‘ زعفران کے کھیت ویران ہورہے ہیں‘ قبرستان سجائے جارہے ہیں اور بھارت سلامتی کونسل کی رکنیت مانگ رہا ہے‘ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر صرف ایک ریاست نہیں بلکہ وہاں تمام اقلیتیں ریاستی تشدد اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور دوسری طرف بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا مطالبہ کررہا ہے۔

دنیا کے اس معتبر فورم کی رکنیت کا طلب گار ہے جس کی قراردادوں پر 72 سال سے عمل کرنے سے انکاری ہے بھارت کسی بھی طور پر سلامتی کونسل کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ اسے بلیک لسٹ میں شامل ہونا چاہیے فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت کی گئی ہے رپورٹ میں انکساف ہوا ہے کہ 44 بھارتی بنک منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے ہیں بھارتی بنکوں نے 3201 غیر قانونی ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک ارب 53 کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی۔

منی لانڈرنگ میں بھارتی نوادرات کے سمگلر بھی ملوث ہیں اور انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں بھی منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوا ہے نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کی رکنیت کے خواستگار بھارت کو تو اصولی طور پر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ہونا چاہیے مگر دنیا کیوں خاموش ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :