ایک فیصلہ راجا محمد ظفر الحق کا بھی ہے

پیر 15 فروری 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 سینیٹ انتخابات کا زمانہ ہے‘ ٹکٹیں بانٹی جارہی ہیں‘ کسی کو ٹکٹ جاری کرکے واپس لیا جارہا ہے کسی کو ٹکٹ دیا ہی نہیں جارہا‘ جہاں سیاسی اور جمہوری اصولوں پر فیصلے نہ کیے جائیں وہاں ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے‘
 قدرتی آفات کسی بھی شکل میں ہوں‘ انسانوں کے لیے اپنی اصلاح ‘ توبہ اور استغفار کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے‘ دو روز قبل میں زلزلہ آیا‘ اللہ نے جنہیں توفیق دی ضرور انہوں نے اس لمحے اللہ کو یاد کیا ہوگا‘ مگر کچھ آفات انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں اس کا علاج بھی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر ہمارے سامنے ایک فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب ملک میں دو روز بعد ملک میں ویلنٹائن ڈے منایا گیا‘ ویلنٹائن ڈے اس ملک میں جنرل مشرف کے دور کا تحفہ ہے‘ اس روشن خیالی اور آج کی تبدیلی کو ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت نے کل قبول کیا تھا اور نہ آج اسے قبول کررہی ہے‘ لیکن ہمیں آج اس ویلنٹائن ڈے کا ذکر کرنا ہے جو مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت منایا ہے اور مسلم لیگ(ن) میں اجنبی نظریات کی حامل آج کی نسل نے پوچھا ہے کہ راجا محمد ظفر الحق کا مسلم لیگ کے لیے کیا کردار ہے؟ انہیں کیا معلوم؟ راجا محمد ظفر الحق اس وقت بھی مسلم لیگ کے کارکن تھے پوچھنے والے اس وقت راولپنڈی میں گنجے ککڑ کی چائے پیا کرتے تھے‘ جب بھی گنجے ککڑ کی بات ہوگی تو راولپنڈی کی سیاسی تاریخ سے واقف حضرات ضرور اس مورچے پر پہنچ جائیں گے جہاں سے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافطوں‘ اسلام پسند اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہامیوں پر نظریاتی گولہ باری کی جاتی تھی‘ راجا محمد ظفر الحق کو مسلم لیگ(ن) ٹکٹ دے نہ دے مگر اس یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی آج کی قیادت ان سے یہ پوچھے کہ مسلم لیگ کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں؟ راجا ظفر محمد الحق ٹکٹ کے محتاج نہیں ہیں بلکہ مسلم لیگ کا ٹکٹ راجا محمد ظفر الحق کا محتاج ہے‘
 مسلم لیگ(ن) میں آج جو لوگ ان کی خدمات کا سوال ا ٹھا رہے ہیں‘ ان کی اپنی حیثیت ریڈیو کے ایک بہت پرانے ڈرامے کے اس کردار کی مانند ہے جس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ” ڈرامے کی کردار ایک خاتون اسکرپٹ کے مطابق اپنے دوسرے کریکٹر سے کہتی ہے کہ وہ میرا قابل اعتماد بھائی لہذا اعتماد کی وجہ سے کہہ رہی ہوں کہ کہ میری بیٹی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرو‘ جواب میں وہ پوچھتا ہے کہ بچے کی عمر کتنی ہو‘ خاتون کریکٹر کہتی ہے کہ کوئی اٹھارہ سال‘ وہ جواب میں کہتا ہے کہ اگر اتھارہ سال کا کوئی مناسب بچہ نہ ملے تو کیا نو نو سال کے دو لے آؤں“ مسلم لیگ(ن) میں آج جن کے ہاتھوں میں قیادت ہے یا فیصلوں کی لگام جنہیں تھمائی ہوئی ہے ان کا حال بھی وہی معلوم ہوتا ہے جس طرح ڈرامے میں کہا گیا کہ اٹھارہ سال کا ملے تو نو نو سال کے دو لے آؤں
 ابھی کل کی بات 2002 کے عام انتخابات کے بعد سینٹ کی تشکیل ہوئی تو مسلم لیگ(ق) کے اس صدر چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹ کے لیے مسلم لیگ(ق) سے باہر سے ایک نام لیا اور انہیں مسلم لیگ(ق) کا ٹکٹ دیا‘ وہ تھے پروفیسر غفور احمد‘ مقصد یہ تھا کہ سینیٹ میں نہائت تجربہ کار‘ مدبر‘ سیاسی رہنماء لائے جائیں تاکہ اس ایوان بالا کا جو جمہوریت میں ارفع مقام اور ڈی کورم ہے اسے برقرار رکھا جائے‘ اسی لیے چوہدری شجاعت حسین جنرل مشرف کی تمام تر مزاحمت کے باوجود ایس ایم ظفر اور انور بھبڈر جیسے پارلیمنٹیرین کو سینیٹ میں لائے تھے‘ ہمیں کسی جماعت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ کسے ٹکٹ دیتی ہے اور کسے نہیں دیتی‘ لیکن اعتراض یہ ہے کہ سیاسی جماعت ٹکٹ دیتے ہوئے میرٹ ضرور دیکھنا چاہیے‘ راجا محمد ظفر الحق سے بڑا اس وقت مسلم لیگ (ن) میں کون مسلم لیگی ہوگا؟ جس سیاسی جماعت میں جمہوری اور پارلیمانی نظام میں سینیٹ جیسے اہم ترین اور اعلی پارلیمانی فورم کے لیے ٹکٹ کا معیار”نو نو سال والے دو“ جیسا بن جائے اس کا پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے‘
 راجا محمد ظفر الحق کی پہچان مسلم لیگ(ن) سے نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) کی پہچان راجا محمد ظفر الحق سے ضرور ہے‘ راجا محمد ظفر الحق جنہوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے‘ اعلی منصب بھی دیکھے‘ اس ملک کی تاریخ کے طاقت ور اقتدار کے با اختیار وزیر اطلاعات رہے بلکہ جنرل ضیاء الحق نے انہیں کہا گیا کہ وہ جب بھی میڈیا سے گفتگو کریں تو مسلم لیگ کی بھی ترجمانی کیا کریں‘ راجا صاحب نے کبھی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کی‘ ہمیشہ مسلم لیگ کے ساتھ رہے‘ پاکستان میں اور بیرون ملک‘ وطن عزیز کی بہترین ترجمانی کی‘ ہر محب وطن انہیں ایک سچا‘ کھرا اور دیانت دار سیاسی کارکن سمجھتا ہے‘ اور وہ سچے‘ کھرے دیانت دار سیاسی کارکن ہیں ان کی دیانت داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا‘ شاید آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت آئی ہوئی ہے انہیں دیانت دار‘ سچے‘ کھرے اور محب وطن‘ اسلام پسند نظریاتی کارکن کی ضرورت نہیں رہی‘ راجا محمد ظفر الحق کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی کسی خدمات پر کوئی صلہ مانگا اور نہ کشور کشائی مانگی‘ انہوں نے جو کچھ بھی مانگا خدائے ذوالجلال سے مانگا‘ ایک فتنہ جسے کبھی اس ملک میں تسلیم نہیں کیا جائے گا یہ فنتہ انہیں ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہے‘ آج بھی اگر یہ کہا جائے کہ اسی فتنے کی وجہ سے انہیں ٹکٹ نہیں ملا تو یہ راجا محمد ظفر الحق کی فوز عظیم کامیابی ہے‘ اللہ اور رسولﷺ کے ایک حقیقی عاشق کے لیے ا س سے ذیادہ اور خوش نصیبی کیا ہوگی کہ انہیں اس فتنے نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے جسے مدینہ کی مٹی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ تا قیامت اس فتنے کے لیے مدینہ کی مٹی کا فیصلہ یہی رہے گا‘ راجا محمد ظفر الحق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں یہ بات پسند ہی نہیں کہ کہ جب کوئی ان کا نام لکھے تو محمد ظفر الحق نہ لکھے‘ اوریہی خوبی انہیں ممتاز کرتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی ٹکٹوں سے بھی بے نیاز کرتی ہے‘ اب قبلہ راجا محمد ظفر الحق سے درخواست ہے
 کہ وہ خود کو محدود نہ رکھیں‘ پاکستان کی وہ نسل‘ جسے آج تعلیمی اداروں میں‘ نظریاتی تعلیم نہیں دی جارہی‘ صحافت کے وہ کارکن جنہیں نظریاتی شخصیت کی زیارت کی طلب اور پیاس ہے اسے وقت دیں‘ اور اس ملک کی نسل کو ایک سچا‘ کھرا‘ دیانت دار‘ محب وطن محب اسلام نظریاتی انسان بنا دیں‘ مسلم لیگ(ن) کی قیادت جو کووڈ19 کی نسبت سے آج کی حکومت کو کووڈ18 کہتی ہے اسے چاہیے کہ وہ خود اس کووڈ21 سے بچ کر رہے یہ کووڈ اسے اس ملک میں اس کھائی میں گرا دے گا جہاں نہ پہنچان باقی رہے اور نہ قبا محفوط رہے گی‘ یہ فتنہ بائیں بازو کے نام سے مسلم لیگ(ن) میں گھس بیٹھیے کی طرح کووڈ 21 ہے اور یہ وائرس صرف اسلام اور محب وطن اور نظریاتی ویکسین سے ہی مارا جاسکتا ہے‘ مسلم لیگ بر صغیر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر بنائی گئی تھی مگر اسے آج فنتہ گھیرے بیٹھا ہے جو سیاسی مسائل کا حتمی علاج یہی سمجھتا ہے کہ ہر حقیقی مسلم لیگی کو نواز شریف سے دور کردیا جائے اسی لیے نفرتیں ہر لمحے پھیلائی جارہی ہیں‘ نگاہیں تلوار بن رہی ہیں اور الفاظ نیزوں کی طرح دلوں میں اتارے جارہے ہیں
 ایک فیصلہ مسلم لیگ(ن) نے کیا ہے وہ بھی سامنے آچکا ہے اور ایک فیصلہ راجا محمد ظفر الحق کا ہے کہ
ان کا جو فرض ہے۔

(جاری ہے)

وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جملہ اسباب جہاں پر ہے تغیر حاوی
اک محبت ہے کہ ہر وقت جواں رہتی ہے
 راجا محمد ظفر الحق کی مسلم لیگ(ن) اور محمد نواز شریف کے ساتھ محبت کل کی طرح آج بھی غیر معمولی ہے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :