کورونا وبا، کیا حکومتی ریلیف اقدامات کافی ہیں ؟ایک لمحہ فکریہ

بدھ 13 مئی 2020

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

سونی سونی سڑکیں ویران گلیاں کھوئے کھوئے پارکس اور چہروں کو ڈھاننپے ہوئے لوگ دیکھ کر محض کچھ عرصہ پہلے کی رونقوں اور رات دن مصروف شاہراہوں اور شہروں میں لوگوں کا جم غفیر ہر طرف چہل پہل صبح صبح سکول کے بچوں کا اجلے کپڑے پہن کر سکولوں کی جانب جانا یاد آتا ہے ۔
 انسان زندگی کی دوڑ میں اس قدر تیز ہو گیا تھا کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ کوئی طاقت اس کی اس تیز رفتاری اور بھاگم بھاگ پر روک بھی لگا سکتی ہے اور پھر ایک ان یکھے وائر س نے زندگی جام کر کے رکھ دی ۔

دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ اس وائر س کی نذر ہو نے لگے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو لائف اس قدر تیز ہوچکی تھی کہ آدمی کے پاس اپنے گھر والوں کے لئے بھی ٹائم نہیں تھا آج متفکر انداز میں اپنے گھر میں مقید ہو کر رہ گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اللہ پاک اس عالمی وبا سے دنیا کو محفوظ فرمائے ۔

امت مسلمہ کو اس موقع پر نہ صرف اللہ پاک سے رجوع کرتے ہوئے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے اس وبا سے نجات کے لئے اجتماعی دعائیں کرنا ہوں گی تا کہ اس مہلک وبا سے بچا جا سکے ۔

سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی بحثیں چل رہی ہیں کہ یہ وائرس ہے کہ نہیں یا فلاں ملک نے اسے تیار کیا ہے ۔ اس کی ویکسین کے حوالے سے بھی اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اس کے کیا سائیڈ افیکٹس ہوں گے ۔ یہ تجریے اور تبصرے تو چلتے رہیں گے ۔وائرس جیسے بھی آیا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس نے دنیا کے ایک سو نو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہزارو ں لوگوں کی جان لے گیا ۔

ہسپتالوں میں لاکھوں لوگ اس مرض سے دوچار ہوکر بیڈز پر ہیں دیکھنا یہ ہے کہ سے بچاؤ اور زندگی کو اپنی سابقہ ڈگر پر واپس لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔
 کورونا وائرس کے آنے سے بعض لوگوں کی تو لاٹری لگ گئی ہے ۔ امداد کے نام پر ۔ کورونا سے بچنانے کے لئے اقدامات کے نام پر انتظامی اداروں اور پولیس نے بھی دیہاڑیاں لگانی شروع کر دیں ہیں ہسپتالوں میں کورونا متاثرہ مریضوں کے لئے کیسے انتظامات ہیں ۔

قرنیطینہ سنٹرز میں رکھے جانے والے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے یہ ایک الگ ٹاپک ہے ۔عام آدمی جس کا کام دن بھر محنت کر کے رات کو بچوں کے لئے آٹے کا بندوبست کرنا تھا وہ روٹی سے محروم ہو کر رہ گیاہے ۔
 حکومت محض یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم نے احساس پروگرام کے تحت اتنے لاکھ لوگوں کو بارہ بارہ ہزار کی امداد کر دی ہے ۔

یہ بھی تو سوچیں کہ بارہ ہزار روپے ایک فیملی کے لئے کتنے دن کام آسکتے ہیں ۔ مہنگائی کے موجودہ دور میں ایک چھوٹی سی فیملی کا ماہانہ خرچ تیس ہزار سے کم نہیں ہے ۔ایسے میں بارہ ہزار روپے کی مدد تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے ۔حکومتوں کو ایسے سفید پوش ااور دیہاڑی دار افراد کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔ محض ٹی وی پر بیٹھ کر چندہ اکٹھا کر کے اور زبانی جمع خرچ کے منصوبے دیکھا کر عوام کو کسی بھی صورت مطمئن نہیں کیا جا سکے گا ۔

ایسے لوگ جنہوں نے بینکوں سے قرض لے رکھے ہیں ان کے قرضوں میں حکومت کو مہلت دینا ہو گی تا کہ وہ زندگی کا پہیہ بہتر طور پر چلانے کے قابل ہو سکیں ۔ ۔ موجودہ حالات کا تقاضایہ ہے کہ جس مقصد کے لئے لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا کہ عوام کی جانوں کو بچایا جا سکے ۔ حکومتی اقدامات اور ایس او پیز کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام بازاروں میں غیر ضروری رش سے گریز کریں کیونکہ احتیاط نہایت ضروری ہے ۔

 پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کی فروک تھامحض ایسے ہی ہو سکتی ہے کہ عوام حکومتی ایس او پیز پر پوری طرح عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کو بچائیں ۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد شہروں میں رش کی صورت حال دیکھ کر نہایت تشویش ہوتی ہے کہ کیا ہمارے لوگوں کو اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں ۔ حکومت کو ایسے تمام لوگوں کے لئے بھی سوچنا ہو گا جن کے کاروبار تا حال بندہیں ۔

پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں عوام کو مشکل کا سامنا ہے وہاں اس شعبہ سے وابستہ لوگ بھی خوار ہو کر رہ گئے ہیں۔ رکشہ ۔ ٹیکسی ۔ ہیئر ڈریسرز کے لئے بھی ایس او پیزکے ساتھ لائحہ عمل تیار ہونا چاہیئے تا کہ ان کی معاشی مشکلات بھی کم ہو سکیں ۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی کاوشوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ اللہ پاک دنیا بھر کے انسانوں کو مہلک وبا سے محفوظ رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :